جاں بی بی بزنجو

میں نے5 جون 2019 کو عید والے دن محترمہ جاں بی بی کی وفات کا سن کر ٹوئیٹ کیاتھا:۔

۔ ”خاوند کی طویل جیلوں، مقدمات اور ٹارچر سیلوں میں برباد رہنے کی حالت میں بھی استقامت دکھانے، بہادری کے ساتھ زندگی کا سامنا کرنے،اور وقار کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کرنے والی بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی بیوہ آج 96برس کی عمر میں فوت ہوگئیں۔۔۔ کبھی کوئی تاریخ دان اور خلق دوست دانشور ایسی سامراج دشمن، قوم دوست اور جمہوریت کے لیے زندگیاں تباہ کرنے والی عظیم خواتین کی سوانح عمریاں ضرور لکھے گا“۔

اس خاتون کا نام جاں بی بی تھا۔ اس نے ساری زندگی سیاسی جدوجہد میں گزار دی۔پہلے انگریز سے آزادی کے لیے تکالیف سہیں۔ 1947 میں انگریز کے چلے جانے کے بعد ریاست کو جمہوری انداز میں چلانے،قوموں کے حقوق، اور اور انسانی آزادیوں کے حصول کی جدوجہد میں زندگی گزار دی۔ کئی بار اور بہت عرصہ کے لیے خاوند،میر غوث بخش بزنجو کو جیلوں، اذیت گاہوں اور نظر بندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ بچوں کی پرورش سے لے کر جہاں داری تک کی ساری ذمہ داریاں اُسی خاتون کو انجام دینی پڑیں۔خاوند دنیا سے بے خبر، اوربے بس، جیل میں بند تھا۔ چنانچہ زمانے کے سرد و گرم بھی جاں بی بی ہی کو دیکھنے تھے۔ اس نے اُس عمیق اور تکلیف بھری تنہائی کا سامنا کیا جو ہر سامراج دشمن اور روشن فکر سیاسی راہنما کی بیوی کے حصے میں آ تی تھی۔

سماجی شعور کا یہ عالم تھا کہ پورے خطے میں صرف ایک بزنجو صاحب ہی وہ شخص تھا جو اُس کی قربانیوں کا اندازہ کرسکتا تھا۔ خاندان کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ بزنجو صاحب بطور سیاسی ورکراس کی بہت عزت کرتا تھا۔ وہ بچوں اور خاندان کے ممبروں کے سامنے جاں بی بی کی وفا، استقلال، بہادری،کاز کے ساتھ جڑے رہنے،اور اس کے لیے سخت مصیبتیں جھیلنے کی خدمات کو تسلیم کرتا تھا۔اُسے احساس تھا کہ اُس کی انسان دوست سیاست کا آدھا سبب جاں بی بی تھی۔

بہت عرصہ قبل بزنجو صاحب کی سوانح عمری لکھتے ہوئے میں نے اُس کتاب کا انتساب یوں کیا تھا: ”بلوچ قومی عوامی تحریک کی گمنام سپاہی،اور بابا غوث بخش بزنجو کی باوفا بیگم ”بی بی جان بی بی“کے نام جس کے خاوند کو 25برس تک اُس سے جدا رکھا گیا۔۔ جیل میں“۔

وہی جان بی بی 5جون 2019کو عین چھوٹی عید کے دن فوت ہوگئی۔ لہذااُس کی ساری اولاد اور عزیز واقارب کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ سے روٹین میں، عید منانے اپنے اپنے گھروں کو آئے ہوئے تھے۔ اگر وہ اُس دن انتقال نہ کرتی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 96سالہ اس بزرگ کے بکھرے خاندان کو ہنگامی طور پر اُس کی تدفین کے لیے کہاں کہاں سے بھاگ آنا پڑتا۔

جاں بی بی بہت عرصے سے بیمار تھی۔ ہٹ دھرمی کے ساتھ تبدیلی سے انکاری سماج کوبدل ڈالنے کی اپنی مصمم جہد میں 96سال لگا کر اب اس کے قوی تھک چکے تھے۔ اس کی آنکھیں تھک چکی تھیں۔ وہ بول چال، چلنے پھرنے،اور اٹھنے بیٹھنے سے معذور تھی۔ اور حتی کہ بچوں پوتوں اور نواسوں کو پہچاننے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔ مگر اس ساری معذوری مفلوجی کا اسے ایک عظیم فائدہ یہ ہوا کہ اُس ماں کو اپنے پیارے بیٹے حاصل خان کی کینسر جیسی موزی بیماری کا پتہ نہ تھا۔ایک ماں کے لیے کتنی پرسکون موت تھی یہ!۔

عید منانے گئے ہوئے عزیزم ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے عید ہی کے دن جاں بی بی کی موت کی اولین اطلاع دی۔دوسرے روز اس کی تدفین کی تصویریں بھیجیں تو اندازہ ہوا کہ تدفین میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔گرم جون کے دن اُسے الوداع کہنے جم غفیر امڈ آئی تھی۔ اچھا خاصا جلوس تھا وہ۔ معلوم ہوا کہ خدا ابھی ہم سے مایوس نہیں ہوا،معلوم ہوا کہ ابھی انسان حساس ہے، ابھی اپنے محسنوں کو اجتماعی دھتکارا نہیں دیاگیا۔ ابھی مقبرے باقی ہیں، ابھی چیذغ سلامت ہیں۔ ابھی جنازے موجود ہیں۔ ابھی اچھوں کا احترام باقی ہے۔۔۔ ابھی بلوچستان زندہ ہے۔

کوئٹہ کیا ہے؟۔ یہ غار اور شہر کو زبردستی یکجا کردہ سندھی رلّی ہے۔ کوئٹہ صنعت سے عاری گارے اور کنکریٹ کی ڈھیریوں کا چیس بورڈ ہے۔ یہ امیری غریبی کی انتہاؤں کا ارینجڈ میرج ہے۔ یہ جدید وقدیم کے سارے شیڈز کا غیر فطری ملغوبہ ہے، یہ سردار کی نامعقولیت کی نامقبولیت کا عجائب گھر ہے، یہ رجیم اور رعیت کاحبیب نالہ ہے۔ کپٹلزم کے اِس وحشت کدے سے ہم پانچ دوست جاں بی بی کی فاتحہ خوانی کے لیے انرون بلوچستان چل دیے۔ اندرونِ بلوچستان شب کی حبس گاہ ہے،”کراہ اور آہ کا اِستھان“ ہے،ہر آہٹ خوف کی پیداوار ہے، اورہر آہٹ خوف جنتی ہے۔ یہاں ہرراہ تیرگی سے نکلتی ہے اور تیرگی سے ہوتی ہوئی تیرگی میں گم ہوجاتی ہے۔

یا جوجیات کے شہر کوئٹہ سے نکلیں تو اندازہ ہوگا کہ اکیسویں صدی کا بلوچستان سول سیکریٹریٹ کے کاغذوں میں قید ہے۔ اور یہ کاغذ بکتا ہے، سکیم بکتی ہے، سکیم کی منظوری بکتی ہے اور ایک سال کے اندر اندر آنے والا کاغذی سیلاب بکتا ہے، اور اسی سکیم کا”ری ٹنڈر“ بکتا ہے۔۔۔۔ بلوچستان بکتا ہے۔ ہرسال بکتا ہے۔

جاں بی بی کا نال کوئٹہ سے ساڑھے تین سو کلو میٹرکے فاصلے پر ہے۔ یہ پانچ، چھ گھنٹے کا سفرہے ۔مگر اُس روز قہر برساتاسورج ہم پہ مہربان تھا۔ہمارا سارا راستہ ایک پتلی دھند کی لپیٹ میں رہا۔ جیسے سورج کے اوپر ایک سایہ دار سکرین ٹانگ دی گئی ہو۔ہم پہ راستہ بھر ایک عجب نرم، شفیق اور پُر مہر فضا تن چکی تھی۔ گاڑی کا اے سی تو ہم محض اس لیے چلارہے تھے کہ ہماری آدھی اُجڑ چکی زلفیں پریشاں نہ ہوں۔ واضح رہے کہ ہم پانچ مسافروں میں سے کوئی بھی پچاس برس سے کم کانہیں ہے۔ سوائے دوستین جمالدینی کے ہم چار کی توسیع شدہ پیشانی چاند سے بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

بلوچستان کا حب الوطنی پیدا کرنے والا لینڈ سکیپ ہو، اور اُسے جلتی دوپہر کو سایہِ ابر کی طرح کی ملگجی سی چادر میں سے دیکھا جائے تو شرطیہ طور پر، آپ،شیرانڑیں مری کے،درکانڑیں نامی ذیلی قبیلے کے،عزت مند فرد کا موڈ طاری ہوگا۔

تن و توند کے مالک عزیز رند نے گاڑی کی لگام سنبھالی اور یوں ہم پنج اجسام،اپنی ارواح کی convergenceیعنی، نال کے لیے روانہ ہوگئے۔ نال جو کہ پون صدی تک منتشر کو مرکوز بناتا رہا، ژولیدگی کو بالیدگی دیتا رہا، بے خیری کو خیر کرتا رہا،اور نفاق کو اتفاق کرتا رہا۔ نال بے ترتیب کو ربط دیتا رہا، خام کو پختہ بناتا رہا اور تنہا پرستی میں مست،شتر خُو بِھیڑ کو قوم بناتا رہا۔۔۔

جیند اور دوستین کو تواُن کے بڑے باپ نے پہلے ہی سے ہماری ہم سفری میں ہانک رکھا تھا۔مگر اس بار اپنے دو دیگر ہم خیال پڑوسیوں کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اور رفاقت کی اصل شکل تو ریل ہوتی ہے یا جیل۔۔۔جیل تو ہم جیند کے ساتھ گزار چکے تھے آج ہم، نذیر زہری اور عزیز رند کے ریل کے ساتھی بن گئے تھے۔میرے یہ سارے ہمسفر گورے چٹے، کھاتے پیتے اور بے ورزش وبسیار خور لگتے ہیں۔ موٹے تو سب کے سب ہیں البتہ تڑنگا ایک آدھ ہی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ موٹا آدمی تڑنگا نہ ہو تو بہت بد صورت لگتا ہے۔ یہ بھی بتادوں کہ اِن سب میں بھوکا بنگالی مَیں ہی لگتا تھا۔

اگر بہادرو صابر سیاسی عورتوں کے لیے بلوچی زبان میں کوئی لفظ موجود نہیں ہے تو میں جاں بی بی کے لیے شاشان پہاڑ کالفظ استعمال کروں گا۔ چنانچہ ہم شاشان پہاڑ کی تعزیت کے لیے شاشان پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔

یہ درست ہے کہ ہم گانے، اماں جاں بی بی کے احترام کی وجہ سے بھی نہیں سن رہے تھے۔ مگر اس لیے بھی،کہ گفتگو کرنے کے لیے ڈھیر سارے موضوعات تھے۔ ہم بابا بزنجو کے بارے میں بات کر رہے تھے،ہم جاں بی بی کی استقلال بھری کمٹ منٹ پہ بات کر رہے تھے۔ ہم بلوچستان کی پولیٹیکل اکانومی پر بات کر رہے تھے۔ پیداواری قوتوں کی حالت پہ بول رہے تھے، بلوچستان میں نچلے طبقے کی سیاست اور تنظیم کاری پر بحث کر رہے تھے۔ہم راستے میں پڑنے والے انفرادی قبائل کی باہمی جنگوں میں ہلاکتوں پہ افسوس کر رہے تھے، سردار کے جاہ وجلال اور اثرمیں یکدم کمی آجانے اور اس کی خالی جگہ پُر کرنے کے لیے بہتر نظام کے موجودنہ ہونے کے تباہ کن اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہم اس سال کی بارشوں کی خیر رساں درشنوں کے قصیدے بول رہے تھے۔ ہم پر ند چرند گُلوں بہاروں کو سراہ رہے تھے۔ ہم وزیروں، مشیروں، اوراسمبلی ممبروں پہ صلواتیں پڑھ رہے تھے۔ ہم یونی پولر دنیا پہ فاشسٹوں کے مکمل قبضے کی سیاہ کاریاں گن رہے تھے، ہم بلوچستان میں غیر فطری اموات اور گمشدگیوں کو رو رہے تھے۔ اتنے بڑے موضوعات کی موجودگی میں ہم ایک دوسرے سے،اور ایک دوسرے کا مذاق بھی نہ اڑا سکے جو لمبے سفر کا ایک لازمی جزو ہوتا ہے۔ وہ ماحول بہت مضحکہ خیزہوتا ہے جب آپ ری سائیکلڈٹین ایجر کے بجائے سینئرسٹیزن بن جاتے ہیں۔

دس گیارہ بجے ہم کڑک چائے کے لیے مشہور ہوٹل کی تلاش میں ابن ِ بطوطہ بنے ہوئے تھے۔ ہر شخص اپنی اپنی یاد داشت کو کھجاکر ایسے ہوٹل کی لوکیشن کے انداز ے لگا رہا تھا۔ اور حسبِ توقع وہ ہوٹل کسی کو یاد نہ آیا۔ ہم بس حافظؔ کی کتاب سے فال نکالنے کی طرح آنکھیں بند کر کے دھرتی کے صفحات میں سے ایک پہ رک گئے اور ہوٹل نامی ایک ہال میں گھس گئے۔ چائے کی ”کڑکی“ کا تو پتہ نہیں البتہ وہاں بیکری کی ساری چیزیں ایرانی دیکھ کر حیران ہوئے۔ اس لیے بھی، کہ وہ کیک اور بسکٹ انتہائی تازہ تھے۔ ہم نے خواہش کی کہ گھر کے لیے بہت سارے کیک خرید کر لے جائے جائیں۔ دوستوں نے بتایا کہ کوئٹہ کی فلاں مارکیٹ ایرانی مال سے بھری ہوی ہے، یہاں سے کیا خریدنا؟۔ ہم کپٹلزم کی فعالیت اور اُس کی ہر جگہ موجود یت پہ ایمان لاتے ہوئے آگے بڑھے۔

بلوچستان میں فاصلے،بہت طویل ہوتے ہیں!۔ہم چلتے رہے، چلتے ہی رہے۔۔۔اور بالآخر قیام اور قول کے ویٹیکن وفا اور استقامت کے مائیل سٹون، اور پڑاؤ اور تسلسلِ سفر کی سرائے، نال پہنچ گئے۔

اور وہاں ظاہر ہے کہ تلخ محفل اپنی کراہیت بھری رسومات کے ساتھ جاری تھی۔ مجھے فاتحہ کے ٹینٹ سے نفرت ہے۔ مجھے وہاں بچھی قالینوں، بالشتوں، دریوں سے نفرت ہے اور اُن دریوں کے کناروں پہ قطار میں رکھے جوتوں چپلوں کے کرخت منظر سے نفرت ہے۔ مجھے انسانوں کے تعزیتی مجمع اوراُس پرچھائے غم کی چادر سے نفرت ہے۔مجھے حیات کے میت میں بدل جانے کے تصور سے نفرت ہے۔

ظاہر ہے حاصل خان کے پاس ہی بیٹھنا تھا، ہم وہاں بیٹھ گئے۔ تعزیتی رسومات ادا کیں۔ہم جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ ان سب باتوں سے واقف تھا۔ ہاں تاریخ کے المناک رویے پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ ہم چونکہ خودظلمت کدے میں روشنی لانے کے سفر میں عمریں صرف کرنے والی جنریشن سے ہیں اس لیے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر جدوجہد کے ماتھے پہ کامیابی کا جھومر سجے۔ ہمارے ساتھیوں، بزرگوں اور اجداد پہ مشتمل انسانوں کی اکثریت انقلابی گُڑ شکر چکھے بغیر کلی کیمپوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر فنا ہوتی رہی ہے۔اور اگر کوئی جدوجہد کامیاب ہوبھی گئی تو تب بھی انقلابی کی بیوی عموماً بے نام ونشان ہی رہ جاتی ہے۔

سماجی انصاف کے ارمان کی خالص اور سچی جدوجہد میں سوسال بتا کر مر جانے والی جاں بی بی،تاریخ کی اُن عورتوں میں سے تھی جنہیں نہ تو ”انقلاب کی بیٹی“ کا لقب ملا اور نہ وہ ”انقلاب کی دلہن“ کہلائیں۔ صعوبتیں، غربت، طعنے،اور سماجی بائیکاٹ ایسی عورتوں کا مقدر رہیں۔ خاوند جائز طور پر ”بابائے بلوچستان“ بن گیا، جائز طور پر بلوچستان کا گورنر بن گیالیکن قربانیوں میں مساوی طور پر شریک اُس کی رفیقہ ِحیات کا نام بھی مرنے کی ساعت تک کسی کو معلوم نہ رہا۔

صمد خان کی صابرہ،گل خان کی زبیدہ اور شورش کی زیب النساکی طرح جاں بی بی بھی ایسی عورتوں میں سے تھی جن کی نظر میں انقلاب کا مطلب قریب ترین انسانوں کا سرکاری اذیت گاہوں میں ٹارچر ہونا تھا۔ انقلاب کے لیے کام، دراصل طویل جدائی، محتاجی اور بے وارثی میں حالات کا مقابلہ کرنا تھا۔ باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کی تعلیم کرانی تھی۔ خاوندوں کی ہمت بڑھانی تھی۔ انہیں ”سب کچھ ٹھیک ہے“ کا پیغام بھیجتے رہنا تھا۔۔۔ اور بھر پور جوانی میں خاوند کے زندہ ہونے کے باوجود بیوگی جھیلنی تھی۔۔ ہم عظیم عورتوں کے بیٹے بیٹیاں ہیں۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ خود یہ بڑے لوگ اپنی فیملی کو کیا کہہ کراُن سے اپنی قربانی کا جواز پیش کرتے رہے ہوں گے۔ ایک دور دراز گوشے میں واقع نال نامی گاؤں کی عام مردو عورت کو کیا پتہ تھا کہ سامراج کس چیز کا نام ہے، فاشزم قد کاٹھ میں کیسا ہوتا ہے، بنیادی انسانی حقوق سے کیا مطلب ہے۔ جمہوریت کون ہے اور آئین کیا چیز ہوتی ہے؟۔ پچاس، سو برس قبل کے ایک پسماندہ گاؤں میں سوشلزم اور سماجی مساوات والے سماج کے بارے میں کیا معلومات ہوتی ہوں گی۔اُس وقت مارشل لا سے پاک قوانین،جمہوری ریاست، آزاد پریس اور آزاد عدلیہ کے بارے میں وضاحتوں کی کتنی قحط سالی ہوگی!۔ان رہنماؤں کے پاس اپنی قربانیوں کے جواز کے لیے مثالوں کی کتنی قلت تھی!۔

ماضی قریب کی بلوچ تاریخ میکار تھی ازم کی تاریخ رہی ہے۔ اور میکار تھی ازم میں روشن فکروں کے لیے ایمپائر کی انگلی ہوتی ہی نہیں۔ ان کے پیچھے کسی جج کا کوئی نظریہ ضرورت نہ تھا۔ نہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ٹھنڈی چھتری دستیاب تھی۔ اشکوں سے سیراب لرزتے ہونٹوں پہ لڑکھڑاتی دعاؤں کا ہوائی رُوٹ بلاک ہوچکا تھا۔صحافی کے قلم کی سیاہی کا ایک ایک مالیکیول سرکار کے حق میں رہن ہوچکاتھا۔جو کچھ تھا فاشسٹ سرکار کا تھا، فاشسٹ سیاسی پارٹیوں کا تھا،فاشسٹ سرداروں کا تھا۔

روزن وروشنی سے محروم قیدی،گھر سے ہفتوں مہینوں کی مسافت پہ اجنبی شہروں کی جیلوں میں تنہائی کو جھاڑو دے رہے تھے، غداری کے فتووں تلے پڑے قیدی ایسے ماحول میں جیل بھگت رہے تھے جہاں ساتھی قیدی بھی انہیں شک اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا تھا۔اور اُن کی بیویاں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کو اپنی دودھ کی واحد بکری بیچ رہی تھیں۔ فون، ای میل، موبائل نہ تھے۔ انہیں مہینوں تک اپنے شوہروں کے زندو مرگ، صحت وبیماری اور ہست و نیست کا پتہ نہ ہوتا تھا۔ انہیں جان سے عزیز شوہروں کو دی جانے والی دہشت ناک سزاؤں کی خبریں حاصل نہ تھیں۔۔۔ اور سب سے ایذا دینے والی بات یہ تھی کہ وہ اپنے وزٹروں عزیزوں کو اپنے شوہروں کے جیل جانے کی وجوہات بیان نہیں کرسکتی تھیں۔ پڑوسنیں کرید کرید کر پوچھتی تھیں کہ غوثی نے کس کے بیل چوری کیے، اس نے کس کو قتل کیا ہے؟۔ اور اگر بزنجو نے چوری کی تھی یا قتل کیا تھاتو کس مائی کے لعل نے سردار کو جیل میں ڈالنے کی جرات کی ہوگی۔ ایسا تو آج تک نہ ہوا تھا۔

لہذا سیاسی عورت پڑوسنوں کے دل میں موجود ہر سوال کا جواب نہ دے سکنے کی وجہ سے چیچک زدہ کی طرح میل جول سے ہی احتراز کر تی رہی ہوگی۔

ولید بزنجو بتاتا ہے کہ ”بڑی ماں“ عموماً کم گوخاتون تھی مگر موقع ہوتا تو بالخصوص اپنی سیاست پہ Out spokenبھی ہو تی۔ حاصل خان کہتا ہے کہ ماں کبھی اپنے ماضی کی، تکلیف دِہ زندگانی کی کوئی شکایت نہیں کرتی تھی۔ نہ ہی اتنی بڑی جدوجہد میں اپنی فعال ترین شرکت پہ اسے کوئی گھمنڈ کوئی تکبرتھا۔ ہاں، ایک مسرت آمیز افتخار ضرور چھلکتا تھا اُس کی نظروں سے۔عوامی کاز سے چوری کی ندامت کا داغ نہ ہونا بقیہ ہرطرح کے دکھوں سے چھلنی جسم کی پاکی پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے۔

محترمہ جاں بی بی،سردار کِیرا خان بزنجو کی بیٹی اور سردار فقیر محمد بزنجو کی بہن تھی۔اس کی اصل تاریخ پیدائش کا کسی کو بھی معلوم نہیں۔مگر وہاں کے بزرگوں سے اتنامعلوم ہواکہ وہ میر بزنجو سے تقریبا دس برس چھوٹی تھی۔ میر غوث بشک کی پیدائش دسمبر1917 کی تھی۔ تو یوں سمجھیے کہ وہ 1927کے لگ بھگ پیدا ہوئی تھی۔

اس کے دو بھائی اور ایک بہن زندہ ہے۔ظاہر ہے وسیع خاندان میں کوئی اس بڑی انسان کو نام سے نہیں پکارتا تھا۔ سب اُسے ”بیزن ئے ماث“ (بیزن کی ماں) یا ”مزنیں ماث (بڑی ماں) کہتے تھے۔

جاں بی بی کی مادری زبان بلوچی تھی۔ وہ براہوی بھی بول سکتی تھی۔ اردو، فارسی اور عربی پڑھ سکتی تھیں۔ وہ بہت دیندار خاتون تھی۔ مطالعہ کی بہت شوقین۔

کہتے ہیں کہ جاں بی بی باغبانی کی بہت دلدادہ تھی۔ اُس کے پاس کھرپی،بیلچہ،گینتی، اور کاشتکاری کے دیگر اوزار کا اپنا ذاتی سیٹ ہوا کرتا تھا۔ اور وہ جب تک ہِل جُل کر سکتی تھی، پودوں درختوں کی دیکھ بھال اور آبیاری کرتی رہی۔۔۔

جاں بی بی کی منگنی کی تاریخ معلوم نہیں، شادی البتہ1945میں ہوئی تھی۔ظاہر ہے یہ ارینجڈ شادی تھی۔ اور چونکہ یہ خاندان کے اندر کی رشتہ داری تھی اس لیے کوئی لب وغیرہ نہیں ادا کیا گیا تھا۔

اُس کے بطن سے چار بیٹے پیدا ہوئے:بیزن، سفر خان، محمد حیات اور حاصل خان۔ اس کی تین بیٹیاں ہیں ناز خاتون، خاتون ملک اور دُر بی بی۔ محترمہ حاتون گوہر، شرآتون اور مہتاب اس کی بہوئیں ہیں۔

وہ حتمی طور پر ایک گھریلو دیہی عورت تھی۔ پون صدی قبل کی ایک روایتی بلوچ خاتون کے بطور وہ پردہ اور برقع کے شرک و پال سے مبرا تھی۔ گاؤں دیہات میں اُس طرح کا پردہ موجود ہی نہ تھا اور نہ اُس کی ضرورت تھی۔

اس نے اپنے گاؤں نال سے باہر کے سفر بہت کم کیے تھے۔کوئٹہ وہ بزنجو صاحب کی گورنری کے زمانے میں آئی تھی اور کچھ عرصہ گورنر ہاؤس میں ٹھہری تھی۔ مگر اپنی اور بزنجو صاحب کی اصولی سیاست کی برکت سے یہ عرصہ بہت کم رہا۔ خاوند کو جیل جانے کی جلدی تھی اور اِس پچاس سالہ سیاسی ورکر کو پھر نال کی عورتوں کے طعنے اور مشکوک سوالات بھگتنے کی تانگ چڑھی تھی۔وہ کچھ عرصہ سورینج میں بھی رہی جہاں اس کا داماد اور بزنجو ؤں کا سردار کوئلہ کانوں میں ملازمت کرتا تھا۔ اسی طرح جاں بی بی نے مچ بھی دیکھ رکھاتھا اس لیے کہ ُاس کا پیارا سیاسی بیٹا بیزن وہاں جیل میں تھا۔ اُس نے سینٹرل جیل کوئٹہ بھی دیکھا تھا جہاں فیملی کا ایک اور فرد تاج محمد بزنجو سیاسی قیدی تھا۔

عمر کے ساتھ ساتھ جاں بی بی کے بیٹے اور داماد ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں فیملیوں کے ساتھ نال سے باہر رہائش پذیر ہوئے۔ تب بچوں اور نواسوں پوتوں کی چاہت اسے بار بار نال سے باہر کھینچتی رہی۔ آخری عمر میں اولاد کی محبت اس پر سکون نال زادی کو کوئٹہ کراچی کے بیچ ٹیبل ٹینس کا بال بنائے رہی۔ اور پھر جب بڑھاپے اور بیماری کا الائنس طاقتور ہوا تو بچے اُسے موسموں کی شدت سے کوئٹہ اور کراچی میں پناہ دلواتے رہے۔

جاں بی بی نے بیرون ِ ملک کوئی سفر نہ کیے۔ حتی کہ خاوند کی گورنر ی کے زمانے کے سرکاری دوروں میں بھی وہ نال ہی میں رہی۔

میں نے حاصل خان سے ماں کے بارے میں بہت معلومات لیں۔ اس نے اپنے بیٹے نوجوان وکیل شاوش (سیاوش مطل،ب:بھوری آنکھوں والا) کو حکم دیا کہ اپنی دادی، یعنی جاں بی بی کی ساری تصویریں مجھے وٹس ایپ کرے۔(اس نے بعد میں تعمیل کردی)۔

ہم لائبریری جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ حاصل خان تکلف میں ساتھ جانا چاہتا ہے مگر ہم نے ہنستے ہوئے اس سے کہا”سارا سال نال سے باہر رہ کر جلیبیاں کھاتے رہتے ہو۔ اورلائبریری کی ساری دیکھ بھال انور کرتا ہے۔ اس لیے یہ اُسی کا استحقاق بنتا ہے کہ ہمارے ساتھ جائے“۔سب حیران ہوئے کہ خاندان اور رشتے داروں میں تو انور نام کا کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے جب دزدیدہ نظروں سے دیکھا تو بیزن نے جھجکتے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر گویا کہا ہوں: ”میں؟“۔ اور میں نے کہا ”ہاں،انور میں آپ کے ساتھ جاؤں گا“۔تب اُس کے نام کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ شروع ہوئی۔ تو میں نے کہا۔ یہ اُسی سے پوچھو۔ مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ بیزن لیڈی ڈفرن میں پیدا ہوا تھااور اس کا نام پہلے انور رکھا گیا تھا۔ بیزن تو بعد کا نام ہے“۔مجھے مزید معلومات نہ تھیں۔ یہ باتیں بھی محترمہ زیب النسا شورش کی بتائی ہوئی تھیں۔ اماں زیب النسا نے بیزن کی پیدائش پہ جاں بی بی کو مبارکی میں ایک روپیہ دیا تھا۔واضح رہے کہ جاں بی بی کا کوئی عزیز رژتہ دار کوئٹہ میں نہیں تھا۔ اس لیے صبح شام کا کھانا زیب النسا ہی مشن ہسپتال لے جاتی تھی۔ انور کی تاریخ پیدائش۔۔۔۔۔۔ ہے جبکہ حاصل خان 3 فروری 1958 میں پیدا ہوا تھا۔

ہم لائبریری کی طرف روانہ ہوئے۔ فیملی کے سارے جوان ساتھ ہولیے۔ میں اِن سب بچوں کو جانتا ہوں۔ اس لیے کہ ان میں سے کچھ کو تو میں اپنے یار امیرالدین کے ہیلپرز سکول میں پڑھتے ہوئے بار بار ملتا رہا تھا اور کچھ اُن سیمناروں میں ریگولر شریک ہوتے رہے تھے جو ہم بابا بزنجو کے لیے سال بہ سال مناتے رہتے تھے۔

اب ماشاء اللہ سب جوان ہوچکے ہیں۔ میں اُن کے جھرمٹ میں لائبریری جاتے ہوئے اچانک رک گیا اوراُن سے ایک بے تکا ساسوال کرڈالا: تم لوگوں میں اِس قابل نوجوان کونسا ہے جواِس بڑے پرچم کو آئندہ سنبھال سکے جس کے لیے یہ علاقہ مشہور ہے؟۔

ظاہر ہے مجھے جواب لینا نہیں تھا۔بس اپنے شیر بچوں کے ذہنوں میں ایک احساس ڈالنا تھا۔ جنہیں زندگی کے جنگل میں، سوروں کے غوغا میں،سکون سے سوچنے سمجھنے کے مواقع ہی نہیں ملتے۔

میر غوث بخش بزنجو کے انتقال کے بعدمیں کبھی بھی ان کی لائبریری جانے کی جرات نہ کرسکا تھا۔ اب جبکہ میر صاحب کے انتقال کو ربع صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اور ہمیں پتہ تھا کہ بیٹوں نے لائبریری اچھی طرح سنبھال رکھی تھی۔ اس لیے نوکیلی میٹھی یادوں کو جھٹک کر،اندر داخل ہوگئے۔

یہ لائبریری محض لائبریری نہیں ہے۔ یہ بلوچ کلچرل کمپلیکس بھی ہے۔یہ مجسموں کا میوزیم بھی ہے،تحفوں میں ملے سوونیرز، یادگاری شیلڈوں کا شوروم بھی ہے۔ اور ان سب کے ساتھ ساتھ یہ ایک خوبصورت نشست گاہ بھی ہے۔یہ ایک فوٹو گیلری بھی ہے جس میں دنیا بھر کے انقلابی جمہوری لوگوں کی تصاویر لگی ہیں۔۔۔۔اور نیچے کتابیں سیٹ کی گئی ہیں۔کاغذ کی ایک بڑی سی شیٹ پر بزنجو صاحب کا شجرہ بھی دیوار پہ آویزاں ہے۔

ہم نے یہاں چھوٹے سے نال میں لینن، ٹالسٹائی، گورکی، سٹالن اور نہرو کی کتابوں کے مکمل سیٹ دیکھے جو کہ بڑی بڑی لائبریریوں میں بھی موجود نہیں ہیں۔ مختلف سائزز اور چھپائیوں میں فردوسی کے شاہنامے کے کئی نسخے یہاں موجود ہیں۔ فیڈل اورچے گویرا پر لکھی ہوئی بہت سی کتابیں سجی ہیں۔ ہم نے ایک گوشے میں سنگت اکیڈمی کی کتابیں چُھولیں۔ ہم نے قرآن شریف کے قدیم ترین نسخے چُومے۔ ہم نے ڈیمز، اور گل خان کی تاریخ کی کتابوں کے سیٹ دیکھے۔ تاریخ طبری کی جلد وں نے ایک لحظہ کو ہمیں رکنے پہ مجبور کیا، پانچ جلدیں گاندھی کی تھیں۔ ہم نے کتابوں کو تکریم کیا اور پیچھے دیکھے بغیر بھاگ نکلے۔

مگر نکلتے کیسے؟۔ پاؤں سے بندھی وفا کی مقدس زنجیرکا دوسرا سرا تو سفید سنگ مرمر سے بندھا تھا۔ بزنجو کی زیارت گاہ جائے بغیر کون بلوچ نال سے روانہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے قبر کے پیر چھوئے، اس کے سینے پہ تقدس کے ہاتھ رکھے اور اُس کے سر کے پیچھے اٹنشن بھری۔ہماری بلوچی زبان ایسی جگہوں میں بھاگ جایا کرتی ہے، بس عربی کی کچھ آیتیں رہ جاتی ہیں۔ وہ پڑھیں۔ اُس کی یادیں اُس وقت اڑ چکی تھیں، اُس کا ہیولہ، اُس کی صورت،اور اس کا قد بُت سب بھول چکا تھا۔ بس، ایک اُس کا آدرش یاد تھا۔ آدرش جو ہم سب کا مشترک تھا، آدرش جسے ایسی جگہوں کی زیارت سے نمو ملتی ہے۔ ہم اس آدرش گاہ پہ اپنے ایمان کی سرسبزی کی دعا مانگتے ہیں اور یادوں، وفاؤں، اور وابستگیوں کی ایک نئی گٹھڑی اٹھائے جاں بی بی کے نال سے نکل جاتے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*