رشتوں کی دیمک

اس مدر ز ڈے پر پہلی بار جب نوما نے اپنے ننھے ہاتھوں سے بنا کارڈ مجھے دیا تو خوشی سے آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، دل نے کہا دنیا میں اگر کوئی رشتہ اور تعلق بے غرض ہے تو صرف ماں اور بچے کا رشتہ ……. اماں …… میری پیاری اماں ……… میں نے آنکھیں بند کر کے اماں کو تلاش کرنے کی سعی کی مگر جانے کیوں… مجھے ایک ایسی ماں کی یاد آئی جس نے اپنے ایک ماہ کے بچے کو زمانے کی سختیاں جھیلنے کو اکیلا چھوڑ دیا تھا –

منحنی سا سمیر جسے سانس کا مرض تھا جب کھانسی کا دورہ پڑتا تو لگتا آج نہیں بچے گا، ہمارے دور پرے کا رشتہ دار اوپر سے پڑوسی ہونے کی وجہ سے اماں بہت خیر خبر رکھتیں۔ اکثر گھر میں جو اچھا کھانا پکتا اسے ضرور بھجواتیں۔ مگر مجھے اس سے عجیب سا حسد محسوس ہوتا جب اماں کی توجہ اس کی طرف دیکھتی، اماں سمجھاتیں ” بے ماں کا بچہ ہے – اس کے ساتھ تمہارا یہ برتاؤ ٹھیک نہیں “۔پر مجھے اپنی ماں کی محبت میں کسی کی شراکت داری بالکل پسند نہ تھی –

کئی سال اسی طرح گزر گئے اس کی کھانسی بھی اس کی عمر کے ساتھ جوان ہوتی گئی، بیماری اور مناسب دیکھ بھال کی کمی وہ کوئی اچھی تعلیم بھی حاصل نہ کر پایا۔ نہ کوئی کاروبار ہی ڈھنگ سے جما پایا، کچھ دن فرائی چپس کا ٹھیلا لگاتا پھر دل بھر جاتا تو کچھ اور بیچنے لگتا اور کبھی یوں ہی گلیوں میں آوارہ گردی کرتا پھرتا، سچ پوچھو تو اس کے ابا ہی کی کمائی پر گھر چل رہا تھا۔ دونوں باپ بیٹے اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے۔ایسے میں اماں ابا ہی بیچ بچاؤ کراتے ……مگر اماں کے بے حد اصرار پر بھی وجہ کوئی نہ بتاتا کہ آخر جھگڑا کس بات پر ہوا ……. میرا بی ایس سی کا رزلٹ آگیا فرسٹ کلاس آئی اور سمیر میٹرک میں تیسری بار لڑھک گیا – میں آگے پڑھنا چاہتی تھی لیکن میری شادی ہو گئی اور میں کویت آگئی اور یوں مکمل ہاؤس وائف بن کر رہ گئی، ان لوگوں سے رابطہ بس اماں کی بتائی ہوئی گفتگو تک ہی محدود رہ گیا …….

فون پر کبھی کبھار ہی اماں اس کے بارے میں بات کیا کرتی تھیں لیکن آج انہوں نے خاص طور پر یہی بتانے کو فون کیا کہ سمیر اپنے باپ کو چھوڑ کر اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ اس کی ماں نے اسے پیغام بھیجا تھا۔ وہ اس سے ملنا چاہتی تھیں –

ہمم تو گویا وہ جانتی تھیں کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے ……

“ہاں ماں کی محبت ایسی ہی چیز ہے سعدی۔اور وہ تو بہت ترسا ہوا تھا.. اچھا ہوا اسے اس کی ماں مل گئی “-

میں سوچ رہی تھی اماں بھی کتنی بھولی ہیں سب کو اپنی طرح سمجھتی ہیں ایک عمر کی محرومیوں کو ایک پل میں کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔

مجھے یاد آیا ایک دن جب اما ں کے کہنے سے اس کے لئے گارلک نان اور دال مکھنی لے کر گئی تھی وہ کمرے میں نہیں تھا میز پر اس کی ڈائری کھلی پڑی تھی..کسی عورت کے اوپری بدن کا عریاں اسکیچ بنا تھا جس کی چھاتیوں کے بیچ میں ننھا بچہ جس کے ہاتھ پاؤں نہیں تھے بس سر اور دھڑ نظر آ رہے تھے جیسے بچہ ماں کی چھاتی سے دودھ چوسنے کی کوشش کر رہا ہو یا پھر ممتا کی گرماہٹ پانے کو اس کے سینے میں گھسنے کی جدو جہد میں اپنے ہاتھ پاؤں تک گنوا بیٹھا ہو… وہ سکیچ اتنی مہارت سے بنا تھا کہ ایک لمحے کو میں مبہوت ہو کر رہ گئی تھی …… اس کے نیچے ایک ادھوری نظم لکھی تھی

میرے خوابوں کو دیمک لگی ہے

دروں گہرا اندھیر ا رس کر

کسی کھائی میں

گرتا ہے

دل ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے

ایک کہتا ہے

اس پری کو بچالوں

جو دکھ کی نیلی جھیل میں رہتی ہے

جس پر نوٹوں کی مکڑیوں نے جالے بن ڈالے ہیں

دوسرا ٹکڑا

خود اس دیو کا قیدی ہے

میرے ساتھ ہی

ویران گھر میں رہتا ہے

اپنے آنسو وں کی زنجیروں سے خود کو

آزاد کروں

گر اسے مار سکوں

……..

اس ادھ کھلے صفحے نے گویا سمیر کے اندر کی دنیا کا وہ رخ مجھ پر کھول دیا تھا جو بہت زرخیز تھا،لیکن اس پر دکھ کی گہری پرچھائی نے اپنے پنجے بری طرح گاڑ رکھے تھے جن سے ہر وقت لہو رستا رہتا تھا -مجھے اس میں اکھیلس* دکھائی دیتا یونانی دیو مالائی کردار جو اپنی لافانی طاقت کے باوجود اپنی کمزور ایڑیوں سے مات کھا گیا تھا- سمیر کا سینہ بھی شائد ممتا کی گرمی سے محروم رہ کر ہمیشہ کے لئے کم زور ہو گیا۔ کتنا شاندار آرٹسٹ یا پھر شاعر ہو سکتا تھا وہ –

میرے نزدیک تو سمیر کے ابا ہی اس کی اماں تھے۔ اس نے اپنے باپ کو بڑھاپے میں چھوڑ دیا جنہوں نے اس کی خاطر دوسری شادی نہ کی کہ سوتیلی ماں بچے سے جانے کیسا سلوک کرے گی۔ مگر میں نے اماں سے کچھ نہ کہا۔میں جانتی تھی وہ کبھی نہیں سمجھیں گی۔ پھر بھی یہی ظاہر کیا کہ ہم دونوں اس کے لئے خوش تھیں اماں دیر تک اس کی باتیں کرتی رہیں

کچھ ہی دن بعد اماں کا فون دوبارہ آیا… سمیر واپس آ گیا… کیوں وہ تو سب سامان بھی لے گیا تھا، ہاں اس کی ماں کو اس کے دوسرے شوہر نے گھر سے نکال دیا تھا۔اب اسے مضبوط سہارے کی ضرورت تھی لیکن سمیر تو نکھٹو اوپر سے بیمار وہ تو الٹا اس پر ہی پڑ گیا، کچھ ہی دن میں اس نے نئے نویلے بیٹے کو دھتکار دیا …….. وہ کہتا ہے اب کبھی اس کی شکل نہیں دیکھوں گا بہت رو رہا تھا بچوں کی طرح… حسب معمول میں نے ہی اسے سہارا دیا …… میں نے شکایتی لہجے میں کہا ہاں اصل میں تو اس کی اماں آپ ہیں وہ پتا نہیں اپنی پیدا کرنے والی ماں میں وہ پیار ڈھونڈتا رہا جو اسے وہاں کیسے مل سکتا تھا

اب میں خود ماں بن چکی تھی ننھی نوما کی دیکھ بھال میں ایسی مگن ہوئی کہ اماں سے بات کرنے کو ترس کر رہ گئی……. انہیں فون کرنے کا وقفہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ………… میں نے محسوس کیا اماں اب سمیر کا ذکر بھولے سے بھی نہیں کرتی تھیں …… مجھے تجسس ہونے لگا آخر ایک دن پوچھ ہی لیا اماں کیا سمیر لوگوں سے آپ کی لڑائی ہو گئی آپ ان کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔ وہ مادرانہ محبتیں ہوا ہو گئیں کیا ………ہاں یہی سمجھ لو… اماں مختصر سا جواب دے کر خاموش ہو گئیں …….. مجھے لگا دال میں کچھ کالا ہے …… لیکن انہیں چھیڑنا مناسب نہ سمجھا …….. ایک شام نوما کو کاٹ میں سلا رہی تھی… تبھی ابا کا فون آگیا ……. باتوں ہی باتوں میں سمیر کی خیریت بھی دریافت کر لی ……. ابا چپ ہو گئے …… کیا بات ہے ابا۔ اس دن اماں بھی ایسے ہی چپ ہو گئیں تھیں… آخر کیا ہوا سمیر کو …….. کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ابا گویا ہوئے ” کیا بتاؤں …… سمیر کی ماں بہت بیمار ہو گئیں تھیں اور ایدھی ہسپتال میں داخل تھیں ” ……. “ایدھی میں… وہ تو بہت امیر تھیں نا” ……. ” ہاں… تھیں تو ان کا سارا کاروبار ان کے نئے شوہر کے ہاتھ میں تھا ……. جس نے دھوکے سے سب کاغذات پر دستخط کرا لئے. صدمے سے جب وہ بیمار ہو گئیں تو کسی نے انہیں ایدھی میں داخل کرا دیا انہوں نے ہی سمیر کو اطلا ع دی بیماری کی …….. سمیر مگر دیکھنے نہ گیا …….. کچھ دن میں ان کا انتقال ہو گیا …… تب وہ ہسپتال گیا ……. مگر میت کو گھر نہیں لایا …… وہیں لاوارثوں کے قبرستان میں تدفین کا کہہ آیا ……. کئی دن تک ہمارے گھر بھی نہیں آیا ……… پھر ایک دن دونوں باپ بیٹا میں ایک بار پھر زور کی لڑائی ہوئی ……. اور اسی لڑائی میں یہ راز بھی کھلا ……. تمہاری ماں اور میں دونوں صدمے سے گنگ ہو گئے …… وہ نیک بخت تو کہتی ہی رہ گئی… ” سمیر تم نے ہمیں غیر سمجھا… جو لاوارثوں میں دفن کرا دیا …… ایسا تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا …… یہ تم نے کیا کیا” ……… سمیر نے جواب میں ایسی نظروں سے ہمیں دیکھا ……. دکھ کی کاٹ اندر تک دل کو زخمی کر گئی …………. اس دن سے ہم اور وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے” ……….

” یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ابا، آپ دونوں نے ایسے وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ دیا جب اسے سب سے زیادہ جذباتی سہارے کی ضرورت تھی “-

” لیکن ہم کیا کرتے بیٹی! جب وہ خود ہی کسی سے نہیں ملنا چاہتا – اس نے خود کو اپنی ہی دنیا میں گم کر دیا جہاں دکھ اور تنہائی کے سوا کچھ نہیں “…

“انکل بھی کچھ نہیں کہتے اسے “-

“وہ کیا کہیں گے، خود خاموش سے رہنے لگے ہیں ” –

لیکن آپ کو پتا لگانا چاہئے ابا …… آخر کوئی ماں ایسی کیسے ہو سکتی ہے اس کے پیچھے کچھ تو وجہ ہو گی-

” کوئی وجہ نہیں، بعض عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، انہیں بس اپنی آسودگیوں سے غرض ہوتی ہے ……. تم نہیں سمجھو گی ابھی” …….

ابا جانے کیا کچھ کہتے رہے مگر میرا ذہن اس گتھی کو سلجھانے میں لگا تھا سمیر کی ماں اتنی بے وفا کیوں تھیں

مجھے گھر واپس آئے ہوئے کئی روز ہو گئے تھے – برابر میں اب اکثر خاموشی ہی رہتی لیکن سمیر کی کھانسی کی آواز رات کے سناٹے کو چیر جاتی- وہ باہر برآمدے میں کم ہی بیٹھتا – اس رات بھی اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا، اماں، ابا تو شائد اس آواز کے عادی ہو چکے تھے یا کان دبا کر اپنے کمرے میں پڑے تھے، لیکن مجھ سے برداشت نہ ہوا، سارے اختلافات بھلا کر اس کے گھر کی طرف دوڑی – مین گیٹ کھلا ہوا تھا، کھانسی کی آواز کا پیچھا کرتی کمرے میں داخل ہوئی. سمیر کے ابا اسے سنبھالنے میں لگے تھے تھوڑی دیر میں جب اس کی حالت بہتر ہوئی تو نسخوں سے بھری فائل میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کچھ دواؤں کی تفصیل پوچھنے لگے، ایسا لگ رہا تھا حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے …… کمرے میں بے نام سی اداس خاموشی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا. سمیر کا حلیہ بھی اس کے کمرے کی طرح بکھرا ہوا اور بیمار تھا لگتا تھا زندگی نے ان دونوں باپ بیٹوں کی طرف دیکھ کر مسکرانا چھوڑ دیا ہو۔سمیر آنکھیں موندے بستر پر کسی ہڈیوں کی ڈھیری کی طرح پڑا تھا مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہ جا رہی تھی …… اپنے بوجھل قدموں کو گھسیٹتی باہر کی طرف بڑھی

” سعدی تم آتی رہنا، تمہارے آنے سے سمیر کا دل لگا رہے گا ”

اس کے ابا کے لہجے میں ایسی التجا تھی کہ میں ٹھٹک کر رک گئی

“نہیں …….. تم کل نہیں آنا ……. بلکہ کبھی مت آنا “…….

سمیر کی سرد آواز جیسے کسی کنوئیں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی

اس نے اپنے تکیے کے نیچے سے مڑا تڑا سا ایک کاغذ نکالا جو کسی کا خط معلوم ہو رہا تھا –

” یہ لے جاؤ اور گھر جا کر پھوپی اماں اور پھوپھا کو بھی پڑھوا دینا “……

” یہ مجھے ایدھی کے دفتر میں اس نرس نے دیا تھا جو امی کے آخری وقت میں ان کے ساتھ تھی “.

اس نے اپنے کانپتے ہاتوں سے وہ خط بستر کی پائنتی کی طرف اچھال کر کروٹ بدل لی –

وہ بوسیدہ خط اپنی بیچارگی سے مجھے تک رہا تھا …….. پڑھتی گئی ……. آخری سطر پر پہنچی تو میرے ہاتھ اسی طرح کانپ رہے تھے جیسے اسے تھماتے ہوئے سمیر کے، اور آنکھیں اشکوں سے بھر چکی تھیں.. یہ خط سمیر کی ماں نے بستر مرگ پر جانے سے کچھ پہلے اسے لکھا تھا ……. اپنی سرد مہریوں پر پچھتاوے سے بھرا ہوا..

لکھا تھا —

مجھے معلوم ہے شائد تم یہ خط کبھی نہ پڑھو پھر بھی لکھے دیتی ہوں. شائد تم مجھ سے کم نفرت کرو …… ہاں ساری عمر اس بات کا خیال نہ آیا

لیکن اب جب موت چند قدم کے فاصلے پر ہے …… اپنا بوجھ اتار دوں تو اچھا ہے ………

ہاں مجھے مردوں سے نفرت تھی …… پھر بھی میں نے ایک کے بعد ایک کتنے مردوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسایا… انہیں لوٹا …… پھر تڑپنے کو چھوڑ دیا …….. تم تو بیٹے ہو پھر بھی تمہیں چھوڑ دیا… کتنا تمہارا باپ گڑ گڑا یا تھا جب تمہیں لے کر میری چوکھٹ پر آیا تھا… دیکھو حسن بانو ……. اس ایک ماہ کے بچے کا ہی خیال کرو …… اسے تمہاری ضرورت ہے …… مگر میں نے کمرے کے باہر ہی سے اسے دھتکار دیا تھا …….. آہ …… کیوں کیا تھا میں نے ایسا… پھر …… جب… سردار خان سے نکاح کیا تھا ……. ایک ماہ میں ہی اسے لوٹ کر سارے گہنے جو اس نے مجھے بنوائے تھے اور امریکی ڈالروں کی گڈیاں…

مہینو ں کام آئیں …… بہت پیچھا کیا اس نے میرا …… پولیس لگوا دی… پھر بھی میں اتنی شاطر ہو گئی تھی …… اس کے ہاتھ نہ آئی …….. پھر تمہیں ایک بار پھر دھوکہ دیا …….. کیوں… تم تو اپنے ماں جیسے باپ کو چھوڑ کر میرے پاس چلے آئے تھے …… میرا پیار پانے کو ……. مگر سوتے تو خشک تھے ……. تمہیں پیار کیا دیتے ……. میں ماں کہلانے کے قابل نہیں …… نہ ہی بیوی ……. آخری بار جسے اپنایا ……. اسے اپنا سمجھا تو وہی میری پیٹھ میں چھرا گھونپ گیا ……… شائد اب میرے حسن کی چھری کند ہو چکی تھی …….. ہاں میرے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا …………

” یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ابا، آپ دونوں نے ایسے وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ دیا جب اسے سب سے زیادہ جذباتی سہارے کی ضرورت تھی “-

” لیکن ہم کیا کرتے بیٹی! جب وہ خود ہی کسی سے نہیں ملنا چاہتا – اس نے خود کو اپنی ہی دنیا میں گم کر دیا جہاں دکھ اور تنہائی کے سوا کچھ نہیں “…

“انکل بھی کچھ نہیں کہتے اسے “-

“وہ کیا کہیں گے، خود خاموش سے رہنے لگے ہیں ” –

لیکن آپ کو پتا لگانا چاہئے ابا …… آخر کوئی ماں ایسی کیسے ہو سکتی ہے اس کے پیچھے کچھ تو وجہ ہو گی-

” کوئی وجہ نہیں، بعض عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں، انہیں بس اپنی آسودگیوں سے غرض ہوتی ہے ……. تم نہیں سمجھو گی ابھی” …….

ابا جانے کیا کچھ کہتے رہے مگر میرا ذہن اس گتھی کو سلجھانے میں لگا تھا سمیر کی ماں اتنی بے وفا کیوں تھیں

مجھے گھر واپس آئے ہوئے کئی روز ہو گئے تھے – برابر میں اب اکثر خاموشی ہی رہتی لیکن سمیر کی کھانسی کی آواز رات کے سناٹے کو چیر جاتی- وہ باہر برآمدے میں کم ہی بیٹھتا – اس رات بھی اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا، اماں، ابا تو شائد اس آواز کے عادی ہو چکے تھے یا کان دبا کر اپنے کمرے میں پڑے تھے، لیکن مجھ سے برداشت نہ ہوا، سارے اختلافات بھلا کر اس کے گھر کی طرف دوڑی – مین گیٹ کھلا ہوا تھا، کھانسی کی آواز کا پیچھا کرتی کمرے میں داخل ہوئی. سمیر کے ابا اسے سنبھالنے میں لگے تھے تھوڑی دیر میں جب اس کی حالت بہتر ہوئی تو نسخوں سے بھری فائل میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کچھ دواؤں کی تفصیل پوچھنے لگے، ایسا لگ رہا تھا حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کر نے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے …… کمرے میں بے نام سی اداس خاموشی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا. سمیر کا حلیہ بھی اس کے کمرے کی طرح بکھرا ہوا اور بیمار تھا لگتا تھا زندگی نے ان دونوں باپ بیٹوں کی طرف دیکھ کر مسکرانا چھوڑ دیا ہو۔سمیر آنکھیں موندے بستر پر کسی ہڈیوں کی ڈھیری کی طرح پڑا تھا مجھ سے اس کی حالت دیکھی نہ جا رہی تھی …… اپنے بوجھل قدموں کو گھسیٹتی باہر کی طرف بڑھی

” سعدی تم آتی رہنا، تمہارے آنے سے سمیر کا دل لگا رہے گا ”

اس کے ابا کے لہجے میں ایسی التجا تھی کہ میں ٹھٹک کر رک گئی

“نہیں …….. تم کل نہیں آنا ……. بلکہ کبھی مت آنا “…….

سمیر کی سرد آواز جیسے کسی کنوئیں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی

اس نے اپنے تکیے کے نیچے سے مڑا تڑا سا ایک کاغذ نکالا جو کسی کا خط معلوم ہو رہا تھا –

” یہ لے جاؤ اور گھر جا کر پھوپی اماں اور پھوپھا کو بھی پڑھوا دینا “……

” یہ مجھے ایدھی کے دفتر میں اس نرس نے دیا تھا جو امی کے آخری وقت میں ان کے ساتھ تھی “.

اس نے اپنے کانپتے ہاتوں سے وہ خط بستر کی پائنتی کی طرف اچھال کر کروٹ بدل لی –

وہ بوسیدہ خط اپنی بیچارگی سے مجھے تک رہا تھا …….. پڑھتی گئی ……. آخری سطر پر پہنچی تو میرے ہاتھ اسی طرح کانپ رہے تھے جیسے اسے تھماتے ہوئے سمیر کے، اور آنکھیں اشکوں سے بھر چکی تھیں.. یہ خط سمیر کی ماں نے بستر مرگ پر جانے سے کچھ پہلے اسے لکھا تھا ……. اپنی سرد مہریوں پر پچھتاوے سے بھرا ہوا..

لکھا تھا —

مجھے معلوم ہے شائد تم یہ خط کبھی نہ پڑھو پھر بھی لکھے دیتی ہوں. شائد تم مجھ سے کم نفرت کرو …… ہاں ساری عمر اس بات کا خیال نہ آیا

لیکن اب جب موت چند قدم کے فاصلے پر ہے …… اپنا بوجھ اتار دوں تو اچھا ہے ………

ہاں مجھے مردوں سے نفرت تھی …… پھر بھی میں نے ایک کے بعد ایک کتنے مردوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنسایا… انہیں لوٹا …… پھر تڑپنے کو چھوڑ دیا …….. تم تو بیٹے ہو پھر بھی تمہیں چھوڑ دیا… کتنا تمہارا باپ گڑ گڑا یا تھا جب تمہیں لے کر میری چوکھٹ پر آیا تھا… دیکھو حسن بانو ……. اس ایک ماہ کے بچے کا ہی خیال کرو …… اسے تمہاری ضرورت ہے …… مگر میں نے کمرے کے باہر ہی سے اسے دھتکار دیا تھا …….. آہ …… کیوں کیا تھا میں نے ایسا… پھر …… جب… سردار خان سے نکاح کیا تھا ……. ایک ماہ میں ہی اسے لوٹ کر سارے گہنے جو اس نے مجھے بنوائے تھے اور امریکی ڈالروں کی گڈیاں…

مہینو ں کام آئیں …… بہت پیچھا کیا اس نے میرا …… پولیس لگوا دی… پھر بھی میں اتنی شاطر ہو گئی تھی …… اس کے ہاتھ نہ آئی …….. پھر تمہیں ایک بار پھر دھوکہ دیا …….. کیوں… تم تو اپنے ماں جیسے باپ کو چھوڑ کر میرے پاس چلے آئے تھے …… میرا پیار پانے کو ……. مگر سوتے تو خشک تھے ……. تمہیں پیار کیا دیتے ……. میں ماں کہلانے کے قابل نہیں …… نہ ہی بیوی ……. آخری بار جسے اپنایا ……. اسے اپنا سمجھا تو وہی میری پیٹھ میں چھرا گھونپ گیا ……… شائد اب میرے حسن کی چھری کند ہو چکی تھی …….. ہاں میرے ساتھ یہی ہونا چاہئے تھا …………

آگے بھی کچھ لکھا تھا …… مگر آنسوؤں کے دھبوں میں چھپ گیا تھا ……… پھر ایک لائن لکھی تھی …….

بچپن کے زخم ہرے ہی رہے کاش میری ماں نے مجھے ایسے گلیوں میں کھیلنے کو نہ چھوڑا ہوتا …… ……. دکانوں پر اکیلے سودا لینے….. سپارہ پڑھنے کو خالہ بی کے گھر گھنٹوں کے لئے نہ بھیجا ہوتا ………… کاش …… میری ماں تم …… اتنی سیدھی نہ ہوتیں ……… کیوں تم نے میری حفاظت نہ کی …………. کیوں بیٹی پیدا کی تھی …… کیوں اللہ نے مجھے ……. حسن دیا …… غریب لڑکی کو تو بد صورت ہونا چاہئے …….. کوئی اس کی طرف بری نگاہ نہ ڈالے ……. میں نے بھی پھر …… سارے مردوں سے خوب …… بدلہ لیا ……. تم سے بھی …….. تمہارا تو کوئی قصور بھی نہ تھا …… نہ تمہارے بے وقوف باپ کا ……… تمہاری صورت میں مجھے اپنا چاچا نظر آیا ……. بالکل ویسی ہی بڑی بڑی آنکھیں …….. مجھے گھورتی ہوئی آنکھیں ……. جیسے مجھے بے لباس دیکھتی ہوں …………. اور تمہارے باپ کو ہوش ہی نہ تھا ……. اس کے ممیرے بھائی گھر میں کس کے لئے آتے تھے …….. وہ محھے بالکل اپنی اماں کی طرح پاگل لگتا تھا ……. میری حفاظت نہ کر سکا ………….. سب مرد ایک سے ہوتے ہیں ……..یہی سمجھتی رہی ساری عمر …… مگر نہیں …….اب جب مرنے کو پڑی ہوں ……… مجھے فٹ پاتھ سے ……. کسی مرد نے ہی اٹھایا …….. یہاں لایا ……. میرے زخموں کو دھویا ……. مجھے مٹی میں لتھڑے وہیں مرنے دیا ہوتا تو اچھا تھا …… …………“آ نسوؤں کے دھبوں نے اس غموں سے بھری تحریر کو اپنے دامن میں چھپا لیا تھا ……………………………۔

۔Achilles or Achilleus۔۔۔یونانی دیو مالائی کردار

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*