دوست تو مر گئی

حسن مجتبی
دوست تو مر گئی
اور ہم زندہ ہیں
زندہ لاشیں
ہم زندہ لاشیں
جو اب بدبو کررہی ہیں
شور کررہی ہیں
لاشیں جو کاندھے پر لاشیں اٹھائے
چلی جا رہی ہیں
کسی لاش کے کاندھے پہ انقلاب کا تابوت
تو کسی کے کاندھے پہ خوابوں کا
ناکام محبتوں کی
کامیاب زندگی کی لاشیں
زندگی کی پتلی گلی سے گذرتے یہ بڑے بڑے تابوت
جن پر پلاسٹک کے پھول چڑھے ہیں
پلاسٹک کے دل جو کبھی نہیں دھڑکتے لاشوں کو چلا رہے ہیں
بیٹریاں چارج ہوتی ہیں لاشیں چل رہی ہیں
جلوسوں جلسوں کی صورت
"یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہونگے”
لیکن افسوس ہم تو ہونگےہی ہونگے
زندہ رہنے کی لالچ اب عادت بن چکی ہے
تو اس ملک میں رہتی تھی
جہاں خودکشی قتل اور قتل خودکشی بنانا
دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے
ان پولیس والوں کے ہاتھوں
جو آدھے سگرٹ سے پچاس کش لگا سکتے ہیں
پاکستان کی بھڑوی پریس نے
تجھے محض ایک "سابق ماڈل” لکھا
میں تجھ سے کہنا چاہتا تھا
لیکن نہ کہہ سکا
"کتابوں میں ڈوبے لوگو لفظ تمہیں کھا جائیں گے”
تمہاری ہی ہم نام قرت العین حیدر نے کہا تھا نہ
"لفظ ہمیں کھا گئے”
تم "سیتا میرچندانی” بن کر جینا چاہتی تھی نہ
بہت مشکل ہوگا لیکن تو جی گئی
لاہوت لامکان سے لیاری تک
ایک چڑیوں سی آواز شور اور سناٹے میں گم ہوگئی
تو گذرتی چلی گئی
گاجی شاہ کی درگاہ پر جن نکالتے عاملوں کے روح پر حال ڈالتے سرندوں کی آوازوں میں
اس کالی کفنی ڈلی لڑکی کے کالے لہراتے بالوں میں
بلوچ سرمچاروں کی دھول ہوتی گذرگاہوں سے ندی نالوں سے
ایک برساتی گاج کی طرح تو گم ہو گئی
کہیں ونی کی گئی زندہ جلائی لڑکیوں کی جسموں کو گھیرے شعلوں میں
گم ہوگئی
سو گئی اپنی ایک سو کہانیاں لیکر
کتابوں کو کیوں جلا ڈالا
کتابوں نے تیرا کیا بگاڑا لڑکی!
ظاہر ہے تو یہی کرسکتی تھی
ہنگلاج ماتا کے چرنوں تک تو گئی تھی نہ
مسافر لکھاری میری دوست
ایسٹ ولیج کے ویجیٹرین ریسٹورنٹ کے بیک روم میں گورے کالے لڑکے اور لڑکیاں اس ہرے راما ہرے کرشنا والے انڈین شہری خدا کو کیسے مان رہے تھے اور تو ہنس دی تھی
تو ہنسنے میں بہت کنجوس تھی
لیکن جب بھی ہنسی
تو نہیں ہنسی تیرا دل ہنسا کرتا
عینی ایک دل تھی
دھڑکتی سچ مچ کی دل
دل کا اس پتھروں کی دنیا میں کیا کام؟
سرمد کا دلی میں کیا کام؟
زندہ عینی کا
زندہ لاشوں میں کیا کام!
بٹلرلائبریری کی فرش تا چھت بھری شیلفوں میں اب شاہ لطیف کے ترجموں کے ایڈیشن کون ڈھونڈھے گا
جرمن بلیوں کے بیچ کوٹری کبیر کے اس صوفی کا سفرنامہ گھنٹوں کون سنے گا جس نے جام ساقی کے ساتھ سفر کیا تھا
تم بانل دشتیاری کی بلوچی شاعری کا پیچھا کرتی رہی
تو ان سب تکیوں آستانوں پر جانا چاہتی تھی جہاں جہاں شاہ لطیف گیا تھا
تو تھر میں امادان چارن کی کہانیاں سنتی رہی
تو میری ستّی ساوتری دوست
عینی صاحبہ
جیتی رہو۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*