یہ تو پرانی ریت ہے ساتھی!

جتنے ہادی رہبر آئے
انسانوں نے خوب ستائے
کَس کے شکنجہ آرا کھینچا
ہڈّی، پسلی، گودا بھینچا
آگ میں ڈالا، دیس نکالا
جس نے خدا کا نام اچھالا
پتھر کھائے، سولی پائی
جس نے سیدھی راہ بتائی
شاعر و مجنوں ان کو بولے
جن کی زباں نے موتی رولے
روڑے مارے، خون بہایا
ساحر کہہ کر ان کو ستایا
ہم تم اس سے کیوں گھبرائیں
یہ تو پرانی ریت ہے ساتھی!۔

داناؤں پر جو نہیں بیتا
ایسا کوئی ظلم نہیں تھا
زندانوں میں پران تیاگے
جھک نہ گئے پر ظلم کے آگے
زہر کا پیالہ منہ سے لگایا
ایسے سمے بھی وعظ سنایا
بھوک سہے، آلام بھی جھیلے
بند ہوئے سب کام وسیلے
گھر سے بے گھر مارے مارے
لیکن ہمت پھر بھی نہ ہارے
حق کے لیے گھربار لٹائے
کرب و بلا میں سر بھی کٹائے
ہم تم اس سے کیوں گھبرائیں
یہ تو پرانی ریت ہے ساتھی!۔

لیکن آخر جیت ہے ان کی
ایسی آئی ریت ہے ان کی
سانچ کو ہرگز آنچ نہیں ہے
گو لوگوں میں جانچ نہیں ہے
پیتل کو بھی سونا سمجھیں
بچے ناگ کھلونا سمجھیں
کب تک جھوٹے وعدے ہوں گے
لوگ بھی کب تک سادے ہوں گے
آخر اک دن رنگ جمے گا
ایسا، جیسے سور دمے گا
یہ ہی ان کی جیت ہے ساتھی!۔
یہ ہی پرانی ریت ہے ساتھی!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*