غزل

بدن کے زنگ کو پوروں کا مَس ضروری تھا

حنا کی پیاس تھی ہاتھوں کو، پس ضروری تھا

اب آ کے سوچتا ہوں میں نحیف ہونے پر

یہاں تک آنے کو تگڑا نفس ضروری تھا

زمیں کو پینٹ کیا اْس نے سات رنگوں سے

خدا کو کتنا بڑا کینوس ضروری تھا

فنا کی گونج نے“ف”کو“الف”سے ملوایا

سمجھ میں آیا انا کا قفس ضروری تھا

علیل ہونا پڑا تھا عمیق ہوتے ہوئے

دلیل کوئی نہیں یار! بس ضروری تھا

شرر دِکھا مجھے اپنا، تو گھپ اندھیرے میں

سو میرے جسم کا سارا نجس ضروری تھا

میں ڈوبتے ہوئے بچتے ہوؤں کو پہچانا

جو میری آنکھ میں چبھتا تھا خس، ضروری تھا

تمہارے ہجر کی تکمیل بھی ضروری تھی

مجھے بھی اپنے لئے اک برس ضروری تھا

ہمیں تھی خواب کی توقیر، اصل کی تحقیر

ضروری ہم کو عبث تھا، عبث ضروری تھا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*