سچ

سچ بڑا مجرم ہے
زنجیروں میں جکڑا گیا ہے
روزِ ازل سے پکڑا گیا ہے
پکڑ جکڑ کر مارا گیا ہے
جھونکا گیا ہے جلتے تیل کڑھائی میں
چوٹی پر سے پھینکا گیا ہے
کولھو میں مسلا گیا ہے
ہاں پر پھر بھی اس کی
ریِت رہی وہی ابھاگی
جس کے من میں کھاٹ لگائے
سُکھ چین اس کا خاک ملائے
آج تیرا مہمان ہوا ہے
پر تونے کبھی یہ سوچا ہے
کس سے تیری یاری ہے!
جرم جس کا بھاری ہے!
سچ بڑا مجرم ہے!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*