غزل

کاغذی گلابوں کی شاعرانہ محفل ہوں

درد ہوں محبت کا عاشقانہ محفل ہوں

تو فلک کا تارا اور میں ہوں ریت صحرا کی

اس زمیں سے امبر تک غائبانہ محفل ہوں

کوئی مجھ کو بھی دیکھے میں بھی ہوں انوکھی سی

دھیمے دھیمے لہجے میں وحشیانہ محفل ہوں

شور سن کے بارش کا صبح گنگناتی ہے

اوس سے مخاطب اک موسمانہ محفل ہوں

آج کل مری حالت شعر میں نہیں ڈھلتی

وصل اور جدائی کی درمیانہ محفل ہوں

عکس ہوں درختوں کے سبز سبز پتوں کا

چہچہاتی چڑیوں کی عارفانہ محفل ہوں

رتجگوں کی اب تمثیل صبح ہونے والی ہے

اشک اشک سجدوں کی پنچگانہ محفل ہوں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*