کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی

ہماری ہسٹری کا ایک دلچسپ باب یہ رہا ہے کہ انجمن اِتحاد بلوچاں بظاہرتو ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ مگر اصل میں یہ ختم کبھی بھی نہیں ہوتی۔ یہ دوسری تنظیموں کو سب کچھ تج کر گم ہوجاتی رہی اور جب بھی وہ دوسری تنظیم فوت ہونے لگتی ہے تو اچانک کہیں سے انجمن اتحاد بلوچاں پھر سے کپڑے جھاڑ کر سامنے آجاتی رہی ہے۔

5فروری1937کو انجمن اتحاد بلوچاں کے راہنما سیوی میں جمع ہوئے اور ایک نئی سیاسی پارٹی بنالی: کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی(KSNP)۔

”نیشنل“ کا لفظ بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا شاید اہم ترین لفظ رہا ہے۔ اس لفظ کا راج پچھلے ایک سو سال سے قائم و دائم ہے۔ اسی نام سے ہماری پوری قومی سیاسی زندگی وابستہ رہی ہے۔سُکھوں کا تو معلوم نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اصطلاح ہماری بے انت قومی اذیتوں، قربانیوں، شان ووقار اور دائمی نیک نامی کے بہت بڑے حصے کی ذمہ دار رہی ہے۔(قومی طبقاتی سیاست کی خاصیتیں!!)۔

1935 بلوچستان میں،بے شمار سیاسی باتوں کے علاوہ ہولناک زلزلے کی وجہ سے بھی اہم سال رہا ہے۔ اِس تباہ کن زلزلے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتیں ہوئیں۔مختصر وقت میں بہت بڑے پیمانے کی انسانی ہلاکتیں خود بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔ اس زلزلے کے باعث میر عبدالعزیز کرد اور خان عبدالصمد اچکزئی کورہائی ملی، اِس شرط پر کہ وہ تین سال کے لیے نیک چلنی کی ضمانت داخل کریں۔ گویا سیاست کا نام نہ لیں۔مگر انگریزوں کا خوف اوردبدبہ اس قدر زیادہ تھا کہ پورے کوئٹہ شہر سے کوئی معزز و معتبرشخص اُن کی ضمانت کے لیے تیار نہ ہوا۔ چنانچہ دونوں کے لیے مستنگ سے ضمانتیں داخل کرنے کا انتظام کیا گیا(1)۔(پتہ نہیں ہمارے ریسرچرزبلوچ سیاست میں مستنگ کے راہنما یا نہ کردار پہ ایک کتاب کیوں نہیں لکھتے؟)۔

ہوایوں کہ میر عبدالعزیز کرد 5فروری 1937کو جب مچھ جیل سے رہا ہو کرسبی پہنچا تو وہاں ملک عبدالرحیم خواجہ خیل،بابو عبدالکریم شورش، گل خان نصیر، ملک محمد سعید دھوار، ملک فیض محمد یوسف زئی اور دیگر وطن پرست نوجوانوں کی میٹنگ ہوئی۔ ایک عرصے تک سیاست کی اندوہوں سے بھرے میدان میں کندن بنے ہوئے یہ اذہان متبادل خیالات سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ ایک بار پھر آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیسی سرگرمیوں سے بھری سیاست کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس میٹنگ میں طے ہوا کہ انجمن اتحاد بلوچاں کے بجائے کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے نام سے ایک تنظیم شروع کی جائے جو انجمن اتحاد بلوچاں کی جانشین ہو۔

جیسے کہ ہم پہلے کہہ چکے یہ پارٹی اور اُس کی ہم نام وہم شکل پارٹیاں اگلی پوری صدی تک بلوچستان کے سیاسی، معاشی و انتظامی حالات کو متاثر کرتی رہیں۔ بلوچ عوام کی اس پارٹی سے ایسی مضبوط اور دیرپا وابستگی رہی کہ اُس لفظ کوکوئی بھی دوسرا لفظ مات نہ دے سکا۔

نیشنل پارٹی جیسی طویل و بختاور تاریخ سوائے کمیونسٹ پارٹیوں کے کسی اور پارٹی کی نہ رہی۔ میر عبدالعزیزکرد اس کا اولین صدر تھا۔ میر گل خان نصیر(نائب صدر)، اورملک فیض محمدیوسف زئی جنرل سیکریٹری۔میر فاضل خان محمد شہی، اورملک عبدالرحیم خواجہ خیل، اور بابو عبدالکریم شورش اس کے اہم راہنما تھے۔

نیشنل پارٹی نسبتاً ایک منظم، فعال اور عصری مسائل سے آگاہ تنظیم ثابت ہوئی۔۔۔ بلوچستان کی شہری سیاست کے اِن سو، سوا سو سالوں میں تین الفاظ حکمرانوں کے چھکے چھڑواتے رہے : منظم، فعال اور آگاہ تنظیم۔ کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی میں یہ تینوں اوصاف وافر موجود تھے۔چنانچہ اس پارٹی نے کلات کے حکمرانوں کو جھنجھوڑ ڈالا۔ واضح ہو کہ ریاست کلات میں عملاً شخصی حکومت قائم تھی جو صرف اپنے ستونوں یعنی سرداروں کے مفادات کا خیال رکھتی تھی تاکہ اس کے اپنے مفادات کے دائرے کو محفوظ و قائم رکھا جاسکے۔ کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی کوشش تھی کہ اس حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہِ بنایاجائے۔ حکومت عوام کی ترقی اور سماجی پیش رفت میں ذمہ دار قرار پائے۔کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے منشور میں اسی مقصد کو اولیت دی گئی تھی:

۔1۔ بلوچستان میں ذمہ دار اور جواب دِہ حکومت کا قیام۔

۔2۔ قوانین خصوصاً جرگہ سسٹم کی اصلاح و تنظیم۔

۔ 3۔ اُن مستجار علاقوں کی بلوچستان میں دوبارہ شمولیت جو مختلف معاہدوں کے ذریعے ریاست نے انگریزوں کو دے رکھے تھے۔

۔-4 ملک میں تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لیے آئینی جدوجہد کا حق۔

۔-5 بلوچستان میں ناجائز ٹیکسوں کی منسوخی۔

یکم اپریل 1937کو کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے اپنے اِس منشور کو بنیاد بنا کر قوم کو اس پارٹی میں شامل ہونے کا بیان جاری کیا۔ اس بیان میں پارٹی نے عالمی اور علاقائی حالات کا باریکی سے جائزہ لیا۔ پارٹی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ”آج جب بلوچستان کے آس پاس اہم ترین تبدیلیاں ہورہی ہیں، شمال میں افغانستان کی سرزمین روز افزوں ترقی کر رہی ہے، مشرقی میں ہندوستان کا کشور عظیم صوبجاتی خود مختاری سے بہرہ مند ہوگیا ہے، مغرب میں دولت ایران اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کر رہا ہے۔ ہر ملک میں ترقی اور آزادی کی روشن ضیاء پھیل رہی ہے۔ان کے بیچوں بیچ ہم بلوچ ہی صرف ایسے بد نصیب واقع ہوئے ہیں کہ ہم پر دنیا کی مسرتوں کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ہیں“۔

یہ تاریخی دستاویز دراصل منشور کی توضیح میں جاری کی گئی تھی۔ اس میں پارٹی نے خان کلات کو متنبہ کیا کہ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بلوچستان کو جیسی سیاسی اہمیت حاصل ہے اس کے پیش نظر یہاں کا نظامِ حکومت ہر پہلو سے مکمل اور مضبوط ہو۔ اس لیے کہ بلوچستان کا یہ خطہ فی الحقیقت ہندوستان، ایران و افغانستان کے درمیان بفر سٹیٹ ہے۔ ایسی حکومت ہر گز بھی شخصی حکمرانی کے نظام کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پالیسی بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ بلوچستان ایران اور افغانستان یا ہندوستان کی طرح ایک علیحدہ مملکت ہے۔ اس میں ایک مربوط قوم بودوباش کرتی ہے۔ یہ انگریزوں کا مفتوحہ ملک نہیں بلکہ دوستانہ اور مساویانہ معاہدوں کے تحت حکومت برطانیہ کے اقتدار اعلیٰ سے وابستہ ہے۔

کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے بارے میں انگریزی حکومت اور اُس کا پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ بہت حساس تھا۔ اسی طرح کلات کے حکمران اور بیورو کریسی کے لوگ بھی حواس باختہ ہورہے تھے۔ سردار جوکبھی بھی عوام میں بیداری، سیاسی شعور اور قومی فکر کو پسند نہیں کرتے ان پر پارٹی کا یہ بیان بجلی بن کر گرا۔ چنانچہ یہ ساری طاقتیں نیشنل پارٹی کے درپے آزار ہوگئیں اور درپردہ پارٹی کو نیچا دکھانے کیلئے سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ مگر نوجوانوں اور خصوصاً محنت کشوں کسانوں اور نچلے طبقوں کی ہمدردیاں پارٹی کو حاصل رہیں جو یقینا پارٹی کی بقاء کے ضامن تھے۔

یہ پارٹی دراصل ایک کسان تحریک تھی۔ جو فیوڈل اور ما قبل فیوڈل نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے اب تک بننے والی ساری پارٹیوں کا تسلسل تھی۔ اِس کسان پارٹی نے ابتداء ہی سے اپنی بنیاد وسیع کرنے کی کوشش کی۔مندرجہ ذیل باتیں اس کے پروگرام میں شامل تھیں۔

۔-1 خون بہا مساوی ہو۔

۔-2 زرِ شاہی اور زرِ سر‘نامی ٹیکس جو سرداروں کی طرف سے لیے جاتے تھے،بند ہوں۔

۔-3 بیگار بندہو۔

۔-4 مالی، پرس اور بجار جو‘اب امدادِ باہمی کے بجائے سرداروں کے ٹیکس بن گئے تھے‘ بند ہوں (2)۔

پڑھے لکھے بلوچ اور دانشورپارٹی اس حسین اور انقلابی پروگرام سے اچھے خاصے متاثر ہوئے۔ اور سب سے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ(بعد کے سو، سوا سو سال تک کی طرح) سرکاری ملازمین اس پارٹی کا اہم اثاثہ تھے۔

کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی اُس زمانے کے سماج کی زبردست عکاس تھی۔ ذرا دیکھیے اس پارٹی کا حلف نامہ، اور پھر اندازہ کیجئے کہ یہ پارٹی کس زمان و مکان اور عوام کی نمائندگی کرتی تھی۔(ہم آپ کو آج بھی یہ حلف لیتے ہوئے خوف آتا ہے!):

”میں اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر اقرار کرتا ہوں کہ آج سے میں خلقِ خدا اور ملک کی خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھوں گا۔ غریبوں، کسانوں اور افتادوں کی خدمت اور ان کے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی کروں گا۔ آج سے میں کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کا ممبر ہوں اور پارٹی کے ہر فیصلے پر کار بند رہوں گا۔ جب تک پارٹی غریبوں اور لاچاروں کی خدمت کرتی رہے گی میں اس کا ممبر ہوں اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گا اور لوگوں کو تباہ و برباد کرنے والی طاقتوں کے خلاف جہاد کروں گا“(3)۔

پارٹی نے قبیلوں کے اہم،سفیدریش،اور نیک لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور اس طرح دانشوروں، سرکاری ملازمین اور قبائلی لوگوں نے پارٹی کو مضبوط بنایا اور یہ پارٹی ایک عوامی پارٹی بن گئی۔ سردار، فیوڈل اور برطانوی حکومت‘پارٹی کے ازلی اور طبقاتی دشمن تھے۔

پارٹی نے تحریر و تقریر کے مواقع حاصل کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔

بلوچی زبان کی ترقی چاہی اور عوام کو باشعور بنانے میں لگ گئی۔اس سلسلے میں اکتوبر1937 کو محمد حسین عنقا نے بلوچی میں پہلا قومی نغمہ چھاپا۔1937 تک کراچی سے یکے بعد دیگر ے کئی اخباروں اور میگزینوں کا اجراء ہواجن میں ینگ بلوچستان، کلمتہ الحق، آفتاب، نجات، حقیقت، بلوچستان اوربولان کے نام شامل ہیں۔

اسی دوران 1938 میں کوئٹہ سے اردو ہفت روزہ ”استقلال“ جاری ہوا۔ یہ اب کرائے کے پریس پر نہیں بلکہ اپنے پریس سے شائع ہوتا تھا:”عزیز یہ پریس“ سے۔جناب یوسف عزیز کے مبارک نام پہ قائم پریس سے۔ ہوا یہ تھا کہ نواب یوسف علی خان عزیز مگسی نے لیتھوپریس خریدا تھا۔ خود تو وہ زلزلہ میں فوت ہوگیا تھا اور وہی پریس1937 میں ”عزیز یہ پریس“ کے نام سے قائم ہوا۔

”استقلال“اخبارمیں بلوچستان کی سیاسی، اقتصادی اور کلچرل ضروریات پر سیر حاصل تبصرے کیے جاتے تھے۔ یہ اخبار مختلف لوگوں کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا رہا یعنی قدوس صہبائی، عبدالصمد اچکزئی، اللہ بخش سلیم، محمد یعقوب غلزئی، محمد حسن نظامی اور عبدالصمد درانی (1946 سے17اگست1950 تک)۔ یہ اخبار1950 میں بند ہوا۔(4)

واضح رہے کہ انجمن وطن نامی ایک سیاسی پارٹی بھی قائم ہوچکی تھی۔ انجمن اور نیشنل پارٹی دونوں برادر پارٹیاں تھیں۔ اس قدر قریب تھیں کہ کوئی شخص بہ یک وقت دونوں پارٹیوں کا ممبر رہ سکتا تھا۔ حتی کہ بہ یک وقت دونوں پارٹیوں کا عہدیدار بھی۔دونوں پارٹیوں کا مشترکہ ترجمان یہی ”استقلال“تھا۔

ریفرنسز

۔ؑ-1عطائی ”بلوچو آزادی۔۔۔۔“ صفحہ نمبر46

۔ؑ-2 اسلم بلوچ۔”از کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی تا نیشنل پارٹی“ سہ ماہی جہد شمارہ نمبر 1،2004۔صفحہ نمبر33

۔-3 یوسف زئی یاد داشتیں۔ صفحہ نمبر211

۔-4 کوثر، انعام الحق ”بلوچستان میں اردو“1968۔مرکزی اردو بورڈ لاہور

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*