میں کون ہوں

کبھی کبھی جب اپنا چہرہ دیکھتی ہوں

ڈر جاتی ہوں

سوچ میں ہی پڑجاتی ہوں

کون ہے میرے روبرو

ویران انکھوں والی

حسرت جس نے پالی

پھر بھی چھب نرالی

جس کی مجھے پہچان نہیں

شاید دیکھ رکھا ہے کہیں

نام ہے کیا۔کیا اس کا پتہ

کاٹ رہی بے جرم سزا

کون شہر کی رہنے والی

کس شہر میں گھر اس کا

کس نگر میں دل اٹکا

کیوں جیون رہتا بھٹکا

کس ساجن کی دیوانء

کس پریتم کی مستانی

پریم نگریا کی رانء

کس کے لیے بن باس لیے

پیا ملن کی آس لیے

زلف بکھیرے دھونی رمائے

اندھیارے میں اپنے نینن دیپ جلائے

روشنیوں کے نگر کی جانب دیکھتی ہے

اندھے جگنو کی مانند اڑتی ہے تو گرجاتی ہے

پل پل ٹھوکر کھاتی ہے

پیار سے باز نہ آتی ہے

تن من جس کا خاک ہوا

قصہ جس کا پاک ہوا

وقت انڈیلے جس کے کان میں سرگوشی

توڑ کے بندھن ضبط کا توڑے خاموشی

بس کر سجنی اور نہ سوچ

سوچین لین گی تجھے دبوچ

بوری اور بستر کو لپیٹ

بیٹھے بیٹھے راکھ نہ بن

منتظر اک آنکھ نہ بن۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*