کشور ناہید ”کورونا“ سے صحت یاب

ناکردہ گناہ کی سزا کا فقرہ میں نے سن رکھا تھا، مگر خود میں نے پہلی بار، اور شاید بھرپور طور پر، کشور ناہید کے ہاتھوں یہ بھگت لی ۔ ہماری اور کشور ناہید کی پہلی ہی ملاقات میں اُس نے بہت نا ترسی کے ساتھ ایسا کرلیا تھا۔…….. اور یہ ڈھائی تین درجن برس پہلے کی بات ہے ۔
کوئٹہ سرینا ہوٹل کا ہال تھا۔ اِس کونے سے لے کر اُس سرے تک پاﺅں کو صوفہ کی طرح نرم لگنے والی موٹی قالین سے مزین ہال۔ایک نہیں دو نہیں بلکہ مختلف ڈیزائنوں اور سائزوں کے فانوسوں سے ،پورا چھت بھرا ہواہے ۔ سیٹج اپنی تزئین اور مکینوں کے حساب سے مزین ومرغن ومتمکن۔ نیچے پہلی قطار فربہ،گوری مگر گنجی گردنوں والے لیڈروں،بیورو کریٹوں یا عالموں فاضلوں پہ مشتمل ہے۔ کوئٹہ کا اکلوتا فائیو سٹار ہوٹل جہاں نمود ومنافقت ایک ایک حرکت ،اور ایک ایک لفظ میں برآمد ہونے کو چھلکتی مچلتی ہے ۔
میں کشور ناہید کو جانتا تھا اس لیے کہ وہ تھی ہی جانی پہچانی اورمشہور ہستی ۔مگر وہ مجھے نہیں جانتی تھی اس لیے کہ بڑے بلوچستان میں بہت بڑی ہستیوں کے ہوتے ہوئے مجھے جاننا بننا ہی نہ تھا۔ منتظمین میں سے کسی نے اُس سے میرا تعارف کرایا۔بس پھر کیاتھا، میرا لاغر چہرہ دیکھ کر اُسے بغیر کسی زہریلے الفاظ سے چپڑا چانٹا استعمال کرنے کا اشتیاق ہوا۔اور اُس نے آﺅ تاﺅ دیکھنے کا انتظار کیے بغیر فقرہ مجھے رسید کر لیا: ”یہ جوتم لوگ پرائی عورتوں کے دونوں کاندھوں پراپنے بازور کھ کر اُنہیں عورت کے حقوق سکھاتے رہتے ہو، بتا ﺅ آج اس ہال میں موجود لوگ اپنی بیوی بیٹیاں کیوں نہیں لائے؟“۔ میں شر میلاپن میں ایسے غرق و کنفیوز کہ بازو اور کندھوں کے اِس استعمال پہ لاحول والاقو ت پڑھنا بھی بھول گیا۔ کلچرل شاک کےلئے یورپ جانا ضروری نہیں ہوتا ، یہ پارسل کی صورت بیرا آپ کے گھر بھی پہنچا دیتا ہے ۔ اور یہاں تو معاملہ فی البدیہہ ہوگیا تھا۔
بھئی کسی خاتون کے کندھوں پر دونوں بازو رکھ کر بات کرنے کے لیے یا تو ڈھیٹ اور ڈھیٹ تر سے بڑھ کر ڈھیٹ ترین بننا ہوتا ہے۔ یا پھر دونوں کی عمریں 90,80 برس کی ہونی ضروری ہوتی ہیں۔ کلچرلی ایک پسماندہ ترین ملک میں کشور ناہید کا یہ جملہ میرے اوسان چکرا دینے کو کافی تھا۔میراخیال تھاکہ وہ تحریر میں ”بری عورت “ ہے ۔ مگر اب پتہ چلاکہ وہ منافقت ودوغلے پن کے خلاف سماجی طور پر بھی ”بری عورت “ ہے ۔
اچھا ،زخم سارے بھر جاتے ہیں ۔ نشان بنائے یا بغیر نشا ن بنائے ، گھاﺅ کلچرل گھاﺅ کبھی شفایاب نہیں ہوتا۔یہ تو درست ہے کہ آج میری سینئر محترمہ کشور ناہید، میری بہت عزت کرتی ہے ۔ بہت پیار سے ملتی ہے ،بہت خاطر تواضع کرتی ہے۔ مگر وہ والا شاک اس قدر گہرا ہے کہ تیس پینتیس برس گزرنے کے بعد، آج بھی ہرا اور،زندہ ہے۔ مگراِس شاک کی خالق و مالک کشور ناہید کی حالت بالکل مختلف ہے۔مشرقین کافاصلہ دو سیکنڈوں میں پاٹنے کی صلاحیت سے مالا مال میری اس دوست کو، مجھے پہنچایا وہ کلچرل شاک ” مدہوشی “ کی حالت میں بھی یاد نہیں دلایاجا سکتا۔
کیا کیاجائے یہ سچی اور کھری عورت میرے سفر کی ساتھی جو ہے۔اِسے تو دو جہاں معاف۔سفر کی ساتھی سے مجھے اِس خطے کے دو بڑے انسان یاد آئے۔ عبداللہ جان جمالدینی اور سائیں کمال خان شیرانی۔ انسان جب بڑائی کی ایک خاص سطح سے گزرجاتا ہے تو الفاظ اپنے روایتی معانی کھودیتے ہیں۔ وہ بس بولنے والے کے ہونٹوں کی جنبش میں چھپے اُس کے ذہن اور دل میں جو کچھ ہے اُس کا ترجمان بن جاتے ہیں۔بلوچستان سنڈے پارٹی کی ایک گیدرنگ میں 90سالہ عبداللہ جان نے اپنے دیرینہ کامریڈ ،”نوے سالہ “ کمال خان کو مخاطب کرتے ہوئے ایسا لفظ کہہ دیا تھا جس پہ ہم سب حاضرین قہقہے لگا کر ہنس پڑے تھے۔ مگر جس کے معانی اُس کے بعد میرے دل میں عزت و شرف کی اصطلاح بن گئے۔ ” سائیں میرا رفیق ِ حیات ہے“۔
چھوڑیے اس سائنسی قضیے کو کہ بگ بینگ کب بجا تھا۔ مگر جب سے تاریخ کی یادداشت کام کرتی ہے دنیا کبھی امن میں نہ رہی۔ ”میرا تیرا“ کا جھگڑا صرف مویشی کی اچھی چراگاہ پہ ہی نہ رہا ۔ بلکہ زرعی معاشرے میں زمین اور زن پہ رہا۔ اور پھر صنعتی نظام میں زر بھی اس میں شامل ہوگیا۔ یہ سیاہ دائرہ ہزار سال سے قائم ہے ۔
اس سلسلہ کو برقرار رکھنے والوں کی بدقسمتی کہ دو (یعنی زر اور زمین) بے جان ہیں مگر کماڈٹی بنائی گئی تیسری چیز نہ صرف جاندار ہے بلکہ ہم جیسی انسان ہے ، سوچنے والی بولنے والی۔۔۔ اور کشور ناہید اس ملک میں اس سوچنے والی بولنے والی مخلوق کی سربراہ ہے۔
اُس یکتا اور وکھری عورت نے ،رفیقوں کے رفیق پبلو نرودا کو ترجمہ کر رکھا ہے ، سیمون ڈی بویرا، فر وغ فرخ زاد،اور لیلی خالد کا ترجمہ کیاہے ۔…….. یہ میں نے اُن لوگوں کے نام لیے جن کو میں نے پڑھا، یا اُن کے نام سے میں آشنا ہوں ۔کشورنے تو وزنی سینکی، کینتھ بیچن ، لیویولڈ، سیداد سینگھور، رابرٹ فراسٹ، جا ن مشکزئی ، چانگ کو سواورہیراکی کی شاعری کو بھی ترجمہ کررکھا ہے۔ نثرمیں سیمون ڈی بورا کے علاوہ بپسی سدھوا کے ناول”برائڈ“ کا ترجمہ بھی اس نے کیاہے ۔ایسی ساتھی سے بھلا کیا حساب کیا کتاب ؟۔ اس کے ثوابو ں کا وزن ہی میری شکایت کو کچل ڈالے گا۔
یہ اوپر درج کردہ نام بغیر وقفہ کےے اعتماد کے ساتھ صرف میں ہی لے سکتا ہوں۔ جی ہاں، دنیا بھر میں وہ واحد شخص ہوں جسے کشور ناہید کی ساری کتابوں کے نام یاد ہیں۔میں نے خواہ کسی اور کو پورا پڑھا ہو یا نہیں ، مگر میں نے کشورناہید کی ساری تصانیف پڑھ رکھی ہیں ۔ساری کی ساری۔ اور وہ بھی غصہ اور جھنجلاہٹ میں۔
ہوایوں کہ میں نے ایک بارفون پر اُس سے اُس کی کسی کتاب کے متعلق پوچھا تھا۔ ا س نے کچھ دیر بعد فون کیا اور بتایا کہ ” میں نے سنگ ِمیل والوں سے کہہ دیاہے ، وہ تمھیں بھیج دیں گے“۔ آئی گئی والی اس بات کانتیجہ مگر یہ نکلا، کہ چند دنوں کے اندر اندر ایک بہت بڑا بنڈل ایک بہت بڑے بل کے ساتھ مجھے موصول ہوا ۔تکلف اور تکلیف بھرے بلوچ ماما نے بہت سارا پیسہ بھرا اور یہ کتابیں وصول کیں۔مگر اُس کا رعب اور میری اپنی عجز ملاحظہ ہو کہ اس وقت بھی میں نے ”ر“ کی بجائے ”ڑ“ کا استعمال کیا تھا:
” بڑی عورت!!۔”
نیم شوق ، نیم جھنجلاہٹ اور نیم غصے میں میں نے ایک ایک کرکے کشور ناہید کی ساری کتابیں پڑھ لیں۔ کافر پبلشر نے انفرادی کتابیں بھی بھیج دیں اور انہی کتابوں پر مشتمل کلیات بھی ۔ آپ نے اپنے کسی دوست کی کتابیں اس صورت کبھی نہ پڑھی ہونگی کہ آپ کا نچلا ہونٹ مستقل طور پر دانتوں کی گرفت میں رہے۔
میر گل خان نصیر نے جس طرح ” کوچ وبلوچ“ نامی کتاب کے سلسلے میں کیا تھا ، وہی بدعت کشور نے سمون بورا کی کتاب کے ترجمے میں کیا ۔ اُس نے1991میں سمون بوار کی عورتوں پہ لکھی کتاب ” سیکنڈ سیکس“ کے ترجمے کی بجائے ایک تو اُس کی تلخیص کرڈالی۔پھراس میں مقامی رنگ اپنی طرف سے انڈیل دیا۔ فرانس میںلاہور شامل کردیا۔ ادیبوں کی کلرک طبیعت ، اور ملّا ذہنیت کے لئے تو یہ حرکت قابلِ اعتراض رہی ہوگی مگرمجھے یہ بہت اچھا لگا۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی ملاوٹ کرنے سے عام قاری بالخصوص عورت قاری کوتفہیم میں فائدہ ضرور ہواہوگا۔
اُس کی یہ کتاب وین گارڈ نے شائع کی تھی ۔انہونی ہوگئی تھی۔ ایک ماہ میں پانچ ہزار کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ یونیورسٹی کے سارے بچے بچیوں نے کتاب خریدی ۔ حکومت میں تو کھلبلی مچ گئی۔ چنانچہ ایسی پُھرتی وقوع پذیر ہوئی کہ وہ کتاب نہ صرف پنجاب میں بلکہ سارے صوبوں میں الگ الگ بَین کی گئی ۔ اب کشور پر باقاعدہ فحاشی لکھنے کے الزام میں مقدمہ قائم ہوا۔
” ایس ۔ پی علاقہ میرے دفتر آکر بولا۔ آپ کہیں چلی جائیے ، مجھے آپ کو آج گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ میں نے کہا ۔” خوشی سے کرو۔ میں تو دفتر بیٹھی ہوں“۔ اس نے پھر کہا ۔” مجھے اچھا نہیں لگے گا۔ آپ براہ ِ مہربانی چلی جائیے“۔
اتنی دیر میں ایک دوست ایس پی کا فون آیا کہ میں اٹک سے ابھی لاہور آرہا ہوں تمہاری ضمانت کرانے۔ لاہور والا ایس پی مجھے حوالات میں لے گیا۔ بڑی مزیدار چائے اور سموسوں سے خدمت کی اور جب تک پیشگی ضمانت کے آرڈر لے کر میرا دوست واپس نہیں آگیا، میں حوالات میں موجود رہی۔ اب چلا باقاعدہ مقدمہ ۔ اعجاز بٹالوی نے انسا ئیکلو پیڈیا سے جب تک سیمون کی کتاب کا معنی” سوشیالوجی“ نہیں نکالا، اُس وقت تک مقدمہ داخلِ دفتر نہیں ہوا۔ اس طرح میری جوڈیموشن کی گئی تھی ، وہ بھی واپس ہوئی۔ البتہ کتاب مستقل دفن رہی“۔
فاطمہ حسن کی ” پوری نہ ادھوری“ والی غزل کی شاعرانہ معانی اپنی جگہ مگر عملی صورت اگر دیکھنی ہوتوکشور ناہید کو دیکھیے۔وہ آپ کو ایک بھرپور تخلیقی انسان کے بطور ملے گی۔ ذہانت بہت، اور محنت بے پناہ۔فیوڈل معاشرے کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کردہ اخلاقیات کی خرافات والی بات چھوڑےے ۔سچی بات یہ ہے کہ بڑے ”شہروں“ کے فیوڈل مائینڈ سیٹ میں اگی ہوئی ،اور پنجاب یونیورسٹی کی عطا کردہ جنگجوئیت بھری بنیادپرستی سے ہماری پوری ” مڈل کلاس ذہنیت “ بڑی محنت سے تشکیل دی گئی ۔ اس شہری مڈل کلاس فیوڈلزم کے اخلاقی معیار پر کوئی بندہ بشر پورا اترہی نہیں سکتا۔ اُن کے دانت‘ (دکھانے والے) تو ٹی وی پہ نظر آتے ہیں اور کھانے والے اُن کی اپنی طرزِبودوباش میں۔ مردانہ ذہن و لسان ہو‘ اور زنانہ وجود تو بائیں کندھے کا فرشتہ لکھتے لکھتے داعی ِاجل ہوجائے مگر زبان نہ رکے۔ اور خصوصاً جب عورت ذرا سی مشہور و نامور ہو تو پھر تو ستلج و بیاس کے سیلابی پانی جیسی زبان خس و خاشاک کرکے رکھ دیتی ہے۔ کسی برسات ، کسی گلیشیئر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہاں میرے وطن میں بھی ایسا ہے ، مگر خصوصاً دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے لوگ ترس کے لفظ و جذبے سے اجنبیت کی حد تک نا واقف ہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی حد سرحد کے منکرہیں۔اب انہیں کشور ناہید کی شکل میں موضوع ہاتھ آیا۔کشورجو عورت ہے ۔
مگرآپ کاواسطہ پڑے تو پتہ چلے کہ وہ روایتی عورت نہیں ہے۔ وہ اپنے شعور کے باعث عورتوں کے حقوق سے متعلق ایسی بے باک ہے کہ مروج کا ایک ایک ریشہ ادھیڑتی جائے۔
اُس کے اس مسلسل و مستقل جدوجہد سے کوئی مثبت حاصلات ہوئیں یا نہیں وہ الگ بحث ہے ۔ لیکن یہ ضرور ہو ا کہ کشور سے متعلق قصے بہت بنے۔ اور عورت کے گرد تو قصے آپ کو معلوم ہے کیا بنتے ہیں۔ چنانچہ اُس کی تحریر، خیالات ، اورنظریات سے متاثر لوگ بھی ،کشور سے متعلق کہانیوں کے بارے میں سننے کہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ میں اپنی کم علمی کے صدقے واری کہ میں نے بدنامیوں کے عروج میں کشور کے دفا ع میں لکھی کوئی ایک تحریر بھی نہیں دیکھی۔
مگر کشور سے متعلق،ضروری نہیں کہ آپ اُن سارے لگائے گئے الزامات ، بہتانات، غیبتوں ، چہ میگوئیوں، کھسر پھسروں اور گالیوں کو دوسرے مصنفوں یا ‘راویوں کی زبانی پڑھیں ۔ جن لوگوں کو معلوم نہ تھا، انہیں کشور نے خود اپنی کتابوں میں بتاڈالا ہے کہ ایک عورت سے، ایک ذرا سی نامور عورت سے فیوڈل معاشرہ خوفزدگی میں کس طرح کاسلوک کرتا ہے۔” جرات مند عورتیں“ تو ہرسماج کا لازمی جزو ہوتی ہیں۔ مگر ”باشعور جراتمند عورتیں“ خال خال۔ ۔۔مگر وہی توسماج کے وقار کی اصل ضمانتیں ہوتی ہیں۔
کشور ناہیدعورت کا شاونسٹ روپ لے کر انسان بنی اور شاونسٹ انسان بن کر عورت ہوئی۔ اس شاونسٹ انسان اور شاونسٹ عورت نے ہتھیار ڈالنے ،اور سپردگی میں جانے پہ تین لعنتیں بھیجیں ۔ قلم اٹھایا اورمردانہ طبقاتی معاشرے کے جغرافیائی و نظریاتی دونوں محافظوں کے کشتوں کے پشتے لگانے میں لگ لگی۔ اس نے نفسیاتی طور پر بیمار اِس سماج کے سارے ویلیوز کے بخیے ادھیڑ کر کلاس ، قومیت اور جنڈر استحصال کو چھپانے والے آ ہنی پردے کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔
اس معاشرے میں چونکہ اخلاق کی سب قدریں مرد کی وضع کردہ ہیں ،اس لیے سماج کی ساخت ایسی ہے کہ عورت مرد کی مرضی پر چلنے پر مجبور ہے۔ اسے مرد کی ناجائز ی اور ناخوشی برداشت کرنا پڑتا ہے ، اور وہ بھی اس طرح کہ اسے زہر کا یہ پیالہ ہنس ہنس کر پینا پڑتا ہے۔ کشور نے اس دہرے پن کا مطالعہ عورت کی نظر سے کیا ہے اور خوب کیا ہے۔
کشور ناہید سب سے بڑا اخلاقی کام یہ کرتی رہی ہے کہ اُس نے کچلے ہوئے لوگوں کے لئے لکھا۔ عورتوں کے لئے لکھا۔صرف اپنے لیے نہیں اس لئے کہ وہ ” اکیلی تو نہیں‘ اس کے اندر کئی عورتیں قید ہیں“۔ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اس نے دنیا بھر کی عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔اور اُس کی جدوجہد کی نوعیت کیا رہی؟ لفظ ،اخلاق اور اخلاقی نظام پرانے ہوجاتے ہیں مگر لفظ اور اکھر پرانا نہیں ہوتا، بالخصوص وہ لفظ جو روشن فکر کو سمیٹے ہوتا ہے۔ اخلاق ،بدل جانے والا مظہر ہوتا ہے مگر تغیر و ارتقا کے مبلغ الفاظ دوام رکھتے ہیں ۔ کشور نے آگہی کا لفظ رقم کیا ۔اس لیے اُسے بقا ہے۔
کشور کی انسان دوستی،ادب و ادیب نوازی وغیرہ کے بارے میں میں نے بہت پڑھا سنا تھا۔ مگربعد میں مجھے خود اُسے دیکھنے پرکھنے (اور بھگتنے کا بھی) موقع ملا۔ مشرف کے دور میں میری حتمی زباں بندی کے لیے ایجنسیوں والے میرے دو بھائیوں اور بڑے بیٹے کو لمبے عرصے قید میں ڈالنے( یا خدانخواستہ مسخ کردہ لاشوں کے بطور پھینک دینے) لے گئے تو خوف و دہشت کی فضا میں سارے احباب نے محتاط اور خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔ مگرکشور نے مجھ پہ پڑی اِس آفت کو گمنام بات رہنے نہ دیا اوروہ اس خبر کو روزنامہ جنگ کے اپنے کالم میں شائع کرکے اسے ہزاروں لوگوں کے نوٹس میں لائی ۔ افتخار عارف اور دوسرے بہت سے معلوم اور کئی نامعلوم احباب کی مدد سے اس جاں گسل پریشانی سے میری نجات ہوگئی ۔(یہ عذاب ناک وقت خدا کرے کسی پہ نہ آئے!)۔ کشور ناہیداپنے احسان بھرے اس کالم کو اسی طرح بھول چکی ہوگی جس طرح کہ اُسے اولین ملاقات میں میری روح کو زخمی کردینے کا واقعہ یاد نہیں ۔مگر مجھے اچھائی کا تذکرہ کیے بغیر تشفی نہیں ہوتی۔بالخصوص ،جب وہ مجھ پہ کی جائے۔
وہ بہت عرصے سے جنگ اخبار میں سماجی ادبی اور سیاسی اہمیت کا کالم مسلسل لکھتی ہے۔ اِن کالموں کا ایک مجموعہ” ورق ورق آئینہ“ کے نام سے چھپ چکا ہے، سال2006 میں۔
کشور ناہید اردو میں لکھتی ہے۔ شاعری کرتی ہے۔سماجی خرابی کے خلاف شاعری کے اُس کے مُکّے اُسی قدر بھاری ہیں جتنے کہ اس کے نثر اور تراجم ۔
کشور عورتوں کے حقوق کی زبردست طرفدار ہے مگرمیں اُس کے لئے فیمنسٹ کا لفظ استعمال نہیں کرونگا اس لیے کہ یہ لفظ مجھے برا لگتا ہے ۔ مجھے ہر وہ اصطلاح بری لگتی ہے جو لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرے ۔ فیمنزم اور فیمنسٹ بہت ہی مدھم و مبہم اور ذرا سی cheapاصطلاحات ہیں۔(اورایک لحاظ سے بورژوا بھی)۔عورتوں کے لیے یہ ایک الگ ”ازم “ گھڑ بھی لی گئی ، اور اس پہ غیر ملکی دورے بھی بہت رہے اور اس لیے عورتوں کے نام پر ( حتیٰ کہ انقلاب کے نام پر بھی ) انقلاب کو روکنے کی کامیاب کوششیں عرصے چلتی رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر پاک بات کو سرمایہ داری نظام کے دانشوروں نے لایعنی انداز میں استعمال کرکرکے ناپاک بناڈالاہے ۔اس لیے خبرداری کی ضرورت تو ہے ۔ خصوصاً ایسے وقت جب خرد افروز تحریک بہت کمزور ہو۔
”عورت کی محکومی“ کے نام پر تنظیمیں کھڑی کرکے اس محکومی کی برقراری میں خود بھی حصہ ڈالنے والیوں کے برعکس عورتیں بھی ہیں۔ایسی عورتیں جنہوں نے عورتوں کی محکومی کو محکوم قوموں ، مزدوروں اور کسانوں کی نجات تحریک سے جوڑنے میں اپنی عمریں بتادیں۔ کشورناہید انہی عورتوں میں سے ہے ۔ اس نے نجاتِ زن کی تحریک کی کمزور رسی کو عمومی عوامی قومی جمہوری تحریک کی کمزور رسی سے مضبوط باند ھنے کی کوشش کی ۔ کشور خود پہ کوئی لیبل و پرچم ورنگ چڑھائے بغیر عورتوں کے حقوق کے معاملے کو دیگر نچلے کچلے اور مظلوم انسانوں کے حقوق کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہے ۔
جس وقت میں نے کشور ناہید کو زیادہ قریب سے نہیں دیکھا تھا، تو میں اُس سے خوفزدہ نہ تھا ۔ مگر اب جبکہ ہم اچھے اور معتبر دوست ہیں تو میں اُس سے ڈرنے لگا ہوں…….. کافر،ڈانٹتی بہت ہے۔ اور دوستوں کو ڈانٹنے کے لئے جواز کی تو ضرورت ہوتی نہیں۔ اُس کی ڈانٹ منصوبہ بند بھی ہوسکتی ہے ، اور‘
فی البدیہہ بھی۔وہ جب چاہے ہم عمری ڈانٹ کو بزرگانہ ڈانٹ بنا دیتی ہے، اور جب چاہے سیاسی ڈانٹ کو دانشی ڈانٹ بنا ڈالتی ہے۔اور اس کی ڈانٹ ڈپٹ ، مذمت ، تنقید ،سب کچھ کا جواز اور ڈنڈا عورت کے حقوق کی سلبی ہوتاہے ۔ کشورناہید (دراصل کشو رجہاں)عام لوگوں یا دانشوروں پر عموماً مگر روشن فکر لوگوں پرخصوصاً اِس معیار کا اطلاق لازمی سمجھتی ہے ۔اس کے معیار کے مطابق پورا معاشرہ اُس وقت استحصال سے پاک ہوگا جب عورت کو برابری کے مواقع دستیاب ہوں گے ۔ اس معاملے میں وہ کاٹ ڈالنے والی شاعری کرتی ہے ۔غیرفعال مشرقی عورت والاحجاب نوچ پھینکتی ہے اور ایک جنگی سپاہ کی تشکیل میں جت جاتی ہے ۔آپ اُس کا ”جاروب کش“ پڑھیے” ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑادیے “ دیکھیے،”میری مانو“ ،”سن ری سہیلی“ ، کلیرنس سیل“، اعتراف “ ”میں کون ہوں“۔” زخمی پر ندے کی چیخ “ ” اے کاتب تقدیر لکھ “سب جگہ آپ کو ایک مزاحم و متحارب عورت ملے گی جو اپنی محکومی مظلومی کے خلاف نبرد آزما ہے۔مگر کمال فن کاری یہ کہ،کشور ناہید ذاتی دکھوں کا دکھاوا نہیں کرتی ۔
وہ مزاحمتی شاعرہ ہے ۔ مزاحمتی وجنگی ڈکشن کے بغیر اس کی شخصیت وشاعری دونوں ادھوری رہ جاتی ہیں……..۔لوگ دلچسپ ہیں کہ ایسی بڑی لڑائی میں ”آیئے گاجائیے گا “ جیسی امتیازات بھری زبان کااستعمال چاہتے ہیں وگرنہ گویا اُن کی شاعری کاوضو ٹوٹ جاتا ہے ۔مثال میں جاکر ذرابلوچی مزاحمتی شاعری تودیکھیے !۔
کشور ناہید بنیاد پرستی کی پکی دشمن رہی۔ بہت ہی بے باکی میں، بہت ہی دو ٹوکی میں۔
لیکن ایک بات میں نے حیرت سے نوٹ کی کہ اس کے کٹھن بچپن اور آگے کی زندگی کی سنگین مشکلات نے مجھ سے پندرہ سال بڑی کشور کے اندر کوئی تلخی آنے نہ دی۔ اس کی سوانح پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اُس کے علاقے میں جیل جیسا پردہ رائج تھا۔ہندوستان کے بلند شہر سے ہمارے بہت سے دوستوں کا تعلق ہے۔ سید زادی کشور بھی وہیں کی ہے ( پیدائش 1940) ۔وہ سات بہن بھائیوں میں سے ایک ہے۔ تقسیم ہند پہ1949 میں اُس کے خاندان کو بھی پاکستان آنے کا سوجھا تھا۔ پابندیوں کے سبب اُس نے گھر میں پڑھا اور مراسلاتی کورس کے ذریعے میٹرک کا سند لے لیا۔پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے‘ معاشیات میں کرلیا۔”
پلو میں جگنوﺅں کی جگہ ماں کی بددعائیں بندھوا کر “شاعر یوسف کامران سے شادی کی۔ دو بیٹے اور بہت ساری بےوفائیاں پائیں۔خاوند 24 سالہ ترش و شیریں ازدواجی رفاقت کے بعد 80کی دہائی میں فوت ہوا۔عورت مخالف سماج میں عورت کشور نے خاندان کو پالا۔
1968 میں اُس کی شاعری کا پہلا مجموعہ ” لبِ گویا“ شائع ہوا۔ یہ غزلوں کا مجموعہ تھا ، اور خوب مقبول ہوا۔پھر غیر ملکی باغیانہ شاعری کا منظوم ترجمہ چھپا۔ آزاد نظمیں ۔
اُس کی ادارت میں چلنے والے مشہور ادبی رسالے ماہِ نو کے شمارے اب بھی علم والوں کے ہاں مجلد ملیں گے ۔کیا خوبصورت رسالہ تھا۔ ادب و علم کا خزانہ۔ اُس رسالے کی اشاعت میں مارشل لا والوں نے زبردست رکاوٹیں ڈالیں مگر کشور پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ دفتراور مارشل لاءآفس سے سخت وارننگ ایشو ہوتے رہے۔ ماہِ نو کی کاپیاں سنسر کے لےے جانے لگیں۔ پھر بھی فیض صاحب کی نظم ”مرے دل مرے مسافر “بھی ماہِ نو میں شائع ہوئی اور فہمیدہ ریاض کی نظمیں تو ایسے شائع ہوئیں کہ سنسر کے وقت رشیدہ ریاض لکھ دیا، بعدمیں چیپی اتار کر فہمیدہ لکھ دیا۔ یوں سنسر والوں کے ساتھ لکّاں بوٹی ( آنکھ مچولی )چلتی رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں ماہِ نو کی قیمت دو روپے ہوتی تھی۔ مگر وہ شائقین رکشہ، ٹانگے پر پانچ روپے خرچ کرکے پرچہ مفت لینے آتے تھے“۔(1)۔
ضیاءالحق کے زمانے میں حکم ہوا کہ ہر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نماز کی امامت کرے گا۔ کشور ناہید نے دفتر والوں کو کہا۔” اب کہاں جاﺅ گے ۔ امامت تو ایک خاتون کرے گی“۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ۔ ” ہم کوئی شکایت نہیں کریں گے۔ آپ ہمیں خود نماز پڑھنے دیں“۔ (2)۔اُس نے ضیا دور کو بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا:
”اس زمانے میں
اے ۔ سی ۔ آر میں نماز پڑھنے کے نمبر بھی دیے جاتے تھے۔……..
”ضیا کی چھوٹی بیٹی کیبنٹ میٹنگ کے دوران بھاگتی ہوئی آجاتی۔ اُسے کوئی روک نہیں سکتا تھا کہ ڈاکٹر نے منع کیا ہوا تھا۔
” ادیبوں میں سے چند لوگ تھے جن کو لطیفے سنانے کے لیے لاہور سے بلایا جاتا اور گھنٹوں ان کے ساتھ وقت گزرتا۔ ضیاءالحق کیا ختم ہوا، وہ اب یہ مانتے بھی نہیں کہ وہ ضیاءالحق کے نورتن تھے“۔(3)۔
کتنا منافقت والا دور تھا یہ۔ہم گواہ ہیں کہ نسیم حجازی زدہ ضیاءالحق کے مارشل لا دور میں میخانے عجب ڈھنگ میں کھلے تھے۔ ہوٹلوں سے پرمٹ کے ذریعہ شراب لینے والے بیشتر جمعداروں کے عیش تھے۔ چھ سو کی بوتل لے کر، بارہ سو کی بیچتے تھے۔ ٹیلیفون پہ آرڈر لیتے تھے، گھروں میں پہنچاتے تھے ۔ ظاہراً ضیاءالحقی اور ”اصولی “گھرانوں میں بھی اس کا چلن عام تھا۔
1988 تک اُسے کبھی اِدھر کبھی اُدھر گھمایا جایا جاتا رہا۔ جب بے نظیر کی حکومت آئی تو اُسے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔مگراردو سائنس بورڈ کا ہنی مون بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوا اور” راتوں رات وزیراعظم ہاﺅس سے سراج منیر نے پا پیادہ ایک ہر کارہ بھیجا اور اُس نے دفتر سے فوری طور پر خارج کرنے کا حکم نامہ میرے ہاتھ پکڑا دیا“۔
اگلے دو سال جب نواز شریف کی حکومت رہی، تب بھی اُسے کبھی کہیں اور کبھی کہیں روانہ کردیا جاتا ۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اُسے تنخواہ ملتی رہی۔
وہ نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل بھی رہی۔اس کا دفتر ادیبوں شاعروں کا مجمع خانہ بن گیا۔ وہ اپنا دفتر بھی خوب چلاتی رہی اور ملنے کے لیے آنے والوں سے باتیں بھی کرتی رہی۔ کسی کا کام تھا سرکار دربار میں ، کسی کا گھر کا کوئی معاملہ تھا۔ کسی کی شاعری یا افسانہ میں اصلاح کرنی ہوتی۔اسی عہدے کی وجہ سے کشور کے خلاف باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔
او ربالآخر کشورناہید ریٹائر ہوگئی۔ ہم سارے پاکستانیوں کی طرح اُس کی نوکری کے بیشتر سال آمرانہ حکومتوں کے دور میں گزرے ۔ اس نے واقعتاً نوکری کی، چاکری نہیں۔ریٹائرمنٹ پر اُس کا اپنا خوبصورت مشاہدہ ملاحظہ ہو:
”جب سے ریٹائرمنٹ لی ہے ، ہر ماہ بنک میں جاکر یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ میں ابھی تک زندہ ہوں پھر مجھے پنشن ملتی ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے چار مہینے کی اکٹھی پنشن لینے کے لیے فارم سائن کیا۔ اکاﺅنٹینٹ نے کہا ۔” آپ الگ سائن کریں کہ پچھلے مہینوں میں بھی آپ زندہ تھیں“۔
کشور نے اپنی ایک کافر آٹو بائیوگرافی لکھی جو 1994 میں چھپی۔تیرہ سوبارہ صفحو ں پر مشتمل
شاعری کے اس کے کلیات2001 میں ”دشت قیس میں لیلیٰ “ کے نام سے چھپے ۔اس میں اُس کے مندرجہ ذیل مجموعے شامل ہیں: لب گویا، بے نام مسافت، نظمیں، کلیاں دھوپ دروازے، ملامتوں کے درمیان ، سیاہ حاشےے میں گلابی رنگ ، خیالی شخص سے مقابلہ، اور ، میں پہلے جنم میں رات تھی۔
وہ تقریباً سال 2000 سے”حوّا“ نامی عورتوں کی ایک تنظیم چلارہی ہے جو کشیدہ کاری وغیرہ کی خرید و فروخت سے معاشی طور پر خود کفیل تنظیم بن چکی ہے۔یہی اُس کی پڑھائی لکھائی کا اڈہ بھی ہے۔یہیں اُس سے ملاقات ہوسکتی ہے ، شام سے قبل اُس سے ” چائے “ پی جاسکتی ہے۔
یادداشتوں کی اُس کی پہلی کتاب” بری عورت کی کتھا“ کے نام سے چھپی تھی۔عام قاری کے دل میں سیدھا مکاّ،(حیرت ، قبولیت اور استرداد کے ذائقوں کا مرکب مُکا) ،مگر یہ مُکا مخالفین کے تو ماتھے پر تھا۔کشور کا علم ہی وسعتوں میں ڈوبا نہیں ہے، اُس کی یادداشت بھی صحیح سالم ہے۔ اسی لیے اس کی تحریروں میں ربط و تسلسل ہے ، اس کے افسانوں میں چاشنی ہے اور اس کے شعر میں کشش ہے۔
کشور، اس لیے بھی یکتا ہے کہ اب اُس جیسے تعداد میں رہے ہی کتنے لوگ ہیں۔ موت سال بہ سال ، ماہ بہ ماہ اس تعداد کو کم کرتی جاتی ہے۔
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
” سوختہ سامانی دِل“2002میں منظرِ عام پہ آئی،یادداشت ” شناسائیاں رسوائیاں“2007 میں چھپی۔اور”وحشت اور بارود میں لپٹی ہوئی شاعری“سال2009میں۔زیتون، آجاﺅ افر یقا،بر ی عورت کے خطو ط ، نازائیدہ بیٹی کے نام،سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ ، بے نام مسافت ، لبِ گویا ، خیالی شخص سے مقابلہ ، میں پہلے جنم میں رات تھی، اُس کی دیگر تخلیقات ہیں۔
کشور ناہید نے غزل سے شاعری شروع کی تھی ، اُسے تلپٹ کرکے رکھا۔ میرا مشاہد ہ ہے کہ اس خطے کی ساری زبانوں میں اردو وہ واحد زبان ہے جس نے اپنی زبان پہ عوام کے پسینے کا میل بہت عرصے تک آنے نہ دیا۔1936 کی تحریک سے پہلے تو یہ زبان خالص اشرافیہ ، دربار اور دربار سے وابستہ اداروں کی زبان رہی۔ اس زبان کوبڑے پیمانے پر ” انسانی“ زبان بنانے کی کوششوں میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہے۔ کشور ناہید کا حصہ یہ ہے کہ اس نے اس زبان کو بیگمات کی فارغ البال غزلیات سے نکال باہر کردیا۔ اور اس میں سبقت لے جانے والی ، اورہر دم تازہ نظم نامی سبقت لے جانے والی اور ہر دم تازہ سوکن لا کر ڈال دی۔
پاکستان میں ” ادب برائے ادب“ تو نظریہ ہی اردو کا تھا ۔ ہماری باقی زبانوں کو تو ویسے ہی اللہ واسطے اس بحث میں گھسیٹ لیا گیا تھا ۔چنانچہ اردو کے ادب برائے ادب کے
نازک اندام ، صاحب طبع اور ”نیور مائنڈ“گروپ سے وابستہ گروہ کو پہلی بار مقدس غزل میں کشور ناہید کی پیچ کس ، انبورہ،اور ہتھوڑا برداشت کرنے پڑے۔اس کی شاعری میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ یہاں غزل تنزل پذیر ہے۔ اور نظم ارتقا اورشباب کی طرف رواں دواں ہے۔ ہر اچھی جدید شاعرہ کی طرح کشور ناہید بھی غزل سے نظم کی طرف متوجہ ہوئی اور پھر نثری نظم تک گئی۔یہی بات اس کے مجموعے” گلیاں، دھو پ،دروازے“ میں بھی موجود ہے۔
بھئی جس کی کتاب کا نام ” ملامتوں کے درمیان“ ہو تو اس کے اندر درج شاعری میں فیوڈل، حجابی اور دوغلے معاشرے سے کیا کیا بے حجابیاں کی گئی ہوں گی۔
نرود ا اُس کا پسندیدہ شاعر ہے۔ مارکوئیز اور کنڈیرا بھی اس کے پسندیدہ ہیں۔گل خان نصیر کو البتہ اس نے نہیں پڑھا( ہم بلوچوں کے شعبہِ اطلاعات کی کمزوری کو وجوہات وجواز دینے کی کیا ضرورت ہے ؟)۔
کشور ناہید کو آدم جی ادبی ایوارڈ، بچوں کے ادب پر یونیسکو انعام ،بہترین ترجمہ ایوارڈ، منڈیلا پرائز اور ستارہ امتیاز ملنے کا تذکرہ میں نہیں کروں گا کہ کشور شاعرہ اور جہدکار بڑی رہی ۔ اس بات کا تذکرہ بھی چھوٹا لگتا ہے کہ کشور پر بےشمار تحقیقی مقالے یونیورسٹیوں اداروں میں لکھے گئے ۔
علم و ادب سے ہٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ صرف دانشوری تک محدود نہ رہی بلکہ عملی طور پر بھی متحرک رہی۔بالخصوص ضیا دور میں ویمن ایکشن فورمWAF میں کشور ناہید خوب سرگرم رہی۔
سچی انسان ، سچی دانشو ر۔پاکستان جیسے ملک میں کسی اچھے انسان کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں کوچے ، کارخانے، کالج اور کھلیان میں کوئی بہت بڑی، اور جینوئن جمہوری اور روشن فکر تحریک موجود نہیں ہے ۔ ظاہر ہے ایسی تحریک کی موجودگی ایک انسان کے ارتقا میں زبردست اثرات ڈالتی ہے۔ انفرادی طور پر معمولی سی فرکشنز سے نہیں لڑنا پڑتا، اپنی ڈھارس خود اُسے بڑھانی نہیں پڑتی، خود کو خود کی تسلیاں دینی نہیں پڑتیں،اور سامعین وناظرین وبرداشت کنندگان خود تلاش نہیں کرنے پڑتے۔
اس لیے جب بھی ایسے معاشرے میں کسی مثبت فرد کے بارے میں بات ہوتو سمجھیے کہ وہ بہت بہت مثبت فرد ہوگا۔۔ کشور ناہید ہماری آپ کی توصیف سے کئی گنا بڑی انسان ہے۔
کشور ناہید کی تحریر یں دلچسپ باتوں سے بھری ہیں۔ایک ٹکڑا دیتا ہوں:
”ایک مدت تک صرف حلقہ ¿ اربابِ ذوق پنڈی ہوتا تھا۔ ایک دفعہ میں آئی، جلسہ ہورہا تھا۔ منشاءیاد کہانی پڑھ رہے تھے۔ ممتاز مفتی صدارت کررہے تھے۔ سب نے تبصرہ کیا۔ مفتی صاحب بار بار مجھ سے کہیں ” تُو بھی کچھ بول“۔ میں نے کہا ۔ ” میں سب سے آخر میں بولوں گی “۔ اب سب منتظر تھے کہ میں کیا کہتی ہوں ۔ آخر مفتی جی نے کہا ۔” اچھا اب بول “۔ میں نے کہا ۔” مجھے کہانی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔ مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ بیئر میں پانی ملا کر نہیں پیا جاتا ہے“۔ ایک قہقہہ پڑا اور محفل برخاست ہو گئی کہ اس کہانی کا ہر پیرا گراف اِس فقرے سے شروع ہوتا تھا۔” پھر وہ بیئر میں پانی ملا کر پیتا رہا “۔(4)۔
جون کے اواخر میں اسے کورونا ہوگیا ۔ ظاہر ہے دیگر دوستوں کی طرح میں بھی روزانہ اُسے فون کرنے لگا۔ اُس نے حسرت سے کہا ”تمہارے رسالے کے لیے دو نظمیں تیار کی تھیں۔ مگر اب تو۔۔۔”اسی لمحے مجھے اس بہادر انسان کا حوصلہ بڑھانے کا عجب خیال آیا۔ میں نے اُسے خاموش رہنے کا کہا اور ”میری بات غور سے سنو“کا حکم نما اصرار کیا اور یہ قصہ گھڑ کر سنایا۔
”آج صبح ایک بہت ہی بدحال وحشی شخص وادی سے گزر رہا تھا ۔ اُس کے کپڑے تار تار تھے ۔ جوتے خون سے اٹے ہوئے تھے ۔ اس کی ایک آنکھ پھوٹی ہوئی تھی۔ ناک سے خون بہہ رہا تھا ، جبڑا سو جا ہوا تھا ۔ بایاں ہاتھ دو جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا اور وہ ایک زخمی پیر گھسیٹ کر بھاگنے کے انداز میں چلے جارہا تھا ۔
بھیڑ بکریاں چرانے والے نے پہاڑ سے اسے آواز دی کہ کون ہو اور کہاں جارہے ہو ۔ اور تمہاری یہ درگت کس نے بنائی ہے “؟۔
اس نے جواب میں کہا کہ ”میں کورونا ہوں۔ اور میں کشور ناہید پہ حملہ آور ہوا تھا ، اُس نے میرا یہ حشر کردیا ہے “۔
کشور قہقہہ لگا کر ہنسی۔ اور گفتگو کے آخر میں مجھ سے قول کر لیا کہ میں تین چار دن میں ٹھیک ہوکر دکھاﺅں گی اور اس کی اطلاع میں خود تمہیں دونگی۔
میں تقریباً روزانہ اسے فون کرتا رہا۔ اور اُس کی عیادت کرتا رہا(اور بزعمِ خود اس کی حوصلہ افزائی) کے لیے کوئی لطیفہ یا شعر وغیرہ سناتا رہا۔
جب وہ ٹھیک ہوگئی تو مجھے اطلاع کرنا بھول گئی۔ میں نے ہی صحت مندی پہ اسے مبارک بادی کا فون کیا۔ اس نے دو تین دفعہ ہیلو ہیلو کہا۔ میں نے چِڑ کر اپنا نام بتایا ” شاہ محمد ”مری “۔ وہ یکدم بولی: ”ڈرنا نہیں جلدی آنا۔ ٹھیک ہوگئی ہوں ۔ تم آﺅ دو نظمیں کوئٹہ پوسٹ کردو“ ۔ میں حیران ہوا ۔ وہ جلدی جلدی کہنے لگی ”ہاں تازہ سبزیاں بھی لے آﺅ“۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اسے غلط فہمی ہوئی ۔میں نے بلند آواز میں کہا ” بھائی صاحب ، کیا ہوگیا آپ کو؟۔میں کوئٹہ سے شاہ محمد مری بول رہا ہوں“۔ یکدم جھینپ کر بولی“ ارے میں سمجھی یہاں قریب کوہ مری سے فلاں آدمی بول رہا ہے “ ۔۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے مزید کہا“ کورونا نے مجھے تو نہیں مارا ، مگر لگتا ہے میری مت مار دی ہے“۔
ایسی ہے وہ۔ ایسے ہیں میرے دوست ۔
***
میں اپنی آخری بات اُس کی اپنی زبانی کہہ دیتا ہوں:”…….. اور جو کتابیں جھوٹ بولتی ہیں انہیں میں اپنے سرہانے نہیں رکھتی“۔

حوالہ جات

-1کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ ۔31۔
-2کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ ۔33۔
-3کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔صفحہ35۔
-4کشور ناہید کی نوٹ بُک ،2014۔سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ۔ صفحہ60۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*