سیمیں درانی اور ان کا فنِ افسانہ نگاری

راقم الحروف نے کچھ عرصہ پہلے فیس بُک پر سیمیں خان درانی کی نظموں کے مختلف پہلوؤں کا مندرجہ ذیل انگریزی الفاظ میں جائزہ لیا تھا:
“Seemeen’s portraits of life around her, both in her fiction and poetry, are always supremely well designed and full of stark realism. And she loves to tell grotesque anecdotes of life around her, especially the macabre and ominous plight of the poor women folks. Seemeen, like an excellent painter, knows fully well the use of light and colours (which is more often gray) and tone in her poems and despite herself being virtually out off from idealistic Romanticism as an angry woman, she produces her own beautiful poetic narrative and images, achieved during her own self-imposed exile from general society, which she finds chaotic, merciless, especially towards itself a society whose traditions to her are gnarled and scaly with age, a society barren and impotent, a male dominated society, corrupt to the roots and a society which is eternally stinking with moral degradation.”
میں نے اس کے بعد سیمیں کے کچھ نمائندہ افسانوں کا مطالعہ کیا ہے، تو چند پہلوؤں میں جزوی طور پر ترمیم واضافے کے علاوہ بنیادی طور پر ان کے افسانوں کے بارے میں بھی میرےیہی خیالات ہیں۔
میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ سیمیں جب افسانے لکھنے کے لیے قلم سنبھالتی ہیں، تو وہ اپنے گردوپیش کے ماحول کا پوری خیرہ کن اور جان دار طاقت کے ساتھ جائزہ لینے کے لیےتیز بہاؤ کے ساتھ صفحات کے صفحات پر حروف بکھیرنے لگتی ہے۔ ان کے بہت سے افسانے بیانیہ انداز میں لکھے گئے ہیں، جو انسانی اور خاندانی رشتوں کی پیچیدگیوں کوexplore کرنے کے حوالے سے Popular fiction کی ہی نہیں، بلکہ بیش تر سنجیدہ، ادبی فکشن تخلیق کرنے والی خواتین کا بھی دنیا بھر میں محبوب طرز تحریر رہا ہے۔ لیکن کسی کہانی یا حکایت کو بیانیہ (Narrative) اسٹائل میں لکھنے کی اپنی ایک الگ dynamics ہوتی ہے اور اگر اس کہانی یا حکایت میں کرداروں اور واقعات کی کثرت ہو تو مختصر افسانوں میں ان کرداروں کی بُنت اور برتاؤ کا واقعات سے ہم آہنگی کا کام اتنا سہل نہیں ہوتا کہ جتنا سمجھا جاتا ہے لیکن سیمیں خان درانی نے میری رائے میں ان رشتے ناتوں کو خود narrator بن کر ایک مسلسل ڈوری میں پُرونے کا کام ان افسانوں کے سلسلے میں بھی بہت احسن طریقے سے کیا ہے، جو افسانے اپنے کرداروں، واقعات کی کثرت اور پلاٹس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ناول یا ناولسٹس ہونے کے متقاضی تھے۔ ان کو بھی انہوں نے اپنی ہنرمندی اور تخلیق کاری کی بہترین اپج کے ساتھ اعلیٰ ادبی نوعیت کے خاکوں کی صورت میں کیا ہے۔ انہوں نے مستقبل میں ان خاکوں کی بنیاد پر شاید بڑے family sagas کی تخلیق کی منصوبہ بندی کی ہے، جیسا کہ دنیا بھر میں نام ور ادیبوں کے ہاں بھی عرصے سے یہ چلن رہا ہے۔
سیمیں نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ وہ بانو قدسیہ اور قرة العین حیدر سے زیادہ متاثر ہیں اور یہ کہ ناقدین اور قارئین کی اکثریت نے ان کو پھر بھی خواتین افسانہ نگاروں میں منٹو کا جانشین قرار دیا ہے۔ لیکن میری اپنی ذاتی رائے میں بانو قدسیہ اور قرة العین حیدر کی فنی تکنیک اور موضوعات سے برتاوے کی تو ان کے ہاں کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں، لیکن ان کا افسانوی رشتہ اس وقت ان سے زیادہ قریب کا نہیں لگتا ہے۔ البتہ جس بے باکی اور جرات مندی سے وہ اپنے اردگرد کے ماحول اور اس میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ پورے معاشرے کی اخلاقی اور ذہنی پستیوں اور غلاظتوں کو وہ مردانہ لہجے میں expose کرتی ہیں، وہ اس کی وجہ سے منٹو کی Dynasty سے ہی بہت قریب ہو جاتی ہیں۔ منٹو کی طرح ہی سیمیں کے افسانوں میں کھلی یا علامتی جنسیت اور اس سے متعلق لفظیات کا اگر بغور جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان میں پڑھنے والوں کو جنسی تلذذ پہنچانے کی دور دور تک کوئی سعی نہیں۔ بلکہ مجموعی طور پر ان کے ایسے افسانوں کے لبِ لباب سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ سیمیں سمجھتی ہیں کہ پدر سری معاشرےpatriarchal society میں مردوں کی حکمرانی کی وجہ سے جنس کا یہ فطری عمل عورت کے لیے اکثر صورت میں ایک جبری انتخابfored choice کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے اور اس سلسلے میں عورت کے لیے خود اس کی اپنی خواہش اور مرضی کی آزادی کا تصور بھی اس معاشرے میں محال ہے۔ دوسری طرف مرد کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ جنسی عمل کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ صرف ایک ہی عورت کے ساتھ کرنے ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کی تمام عورتوں پر کرنے کی خواہش کو اپنا فطری حق سمجھتا ہے۔ سیمیں اپنے افسانوں کی تھیمز میں اس قسم کے مردوں کے ایسے ہی حیوانی جذبات اور خیالات کو اسی سفاکانہ tone میں expose کرتی ہیں۔ ان میں ان کے حقیقت نگاری پر مبنی افسانے بھی ہیں اور سائنس فکشن سے متعلق بھی۔ پہلے ہم ان کے سائنسی افسانوں کا ہی مختصر ذکر کرتے ہیں۔
جدیدعالمی سائنس فکشن Mary Shalley کی کہانی Frankenstein (1920) اورJules vernes،H.G.wells ، Ray Bradbury، Isaac Asimov، Arthur C.Cark ، J.G Ballard، Kurt vonnegut اور William Gibsonوغیرہ کی روایات پر کھڑا ہے۔ لیکن مجھے سیمیں کے سائنسی یا مشینی افسانوں میں چیکو سلواکیہ کے کارل چاپیک (Karel Capek) کے شہرہ آفاق ڈرامے R.U.R (Rossum’s universal robots) کی زیادہ جھلک نظر آئی، جو لکھا تو 1920میں گیا تھا ،لیکن 1923میں جب وہ اسٹیج پر پیش ہوا تو پورے یورپ اور امریکہ میں اس نے دھوم مچا دی اور فوری طور پر اس کا دنیا کی 30 زبانوں میں ترجمہ ہو گیا تھا۔ نیز اس کے زیر اثر Anti social philosophyپر مبنی مصوری میں ڈاڈا ازم کی تحریک بھی شروع ہوئی۔
ڈرامہ R.U.R کا آغاز ایک فیکٹری سے ہوتا ہے جو مصنوعی (Artificial) لوگوں کو بناتی ہے، جو Robots کہلاتے ہیں۔ یہ Synthetic organism matterسے تیار ہوتے ہیں۔ یہ آج کے Robotsکی شکل سے تو پوری طرح مماثلت نہیں رکھتے ہیں اور مشینی نوعیت کی بجائے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں اور جدید اصطلاحات میں ان کو androitsیا replicants کے قریب سمجھا جائے تو مناسب ہو گا۔ ان کو انسان جیسا ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ ان کی طرح کی سوچ بھی رکھتے ہیں۔ یہ شروع میں حقیقی انسانوں کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن پھر ان Robots کی بغاوت کے نتیجے میں پوری انسانی نسل ہی ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے۔ چاپیک نے بعد میں اپنی تصنیف War with the Newts’ ‘میں اس کے برعکس منظر نامہ پیش کیا کہ اس میں غیر انسانی لوگ (Non humans) حقیقی انسانوں کے لیے ان کے خدمت گزار طبقے کی صورت میں پیش ہوتے ہیں۔ R.U.R انسانیت کے لیے ایک خوف ناک تاریکی کا ایک پیغام ضرور ہے لیکن پھر بھی امید کی روشن کرنوں کی جھلک اس میں موجود ہے جو سیمیں کی پدر سری معاشرے کے خلاف بے لچک، غیر مفاہمتی، گونج دار، لمبی لتاڑ یا ملامت کی تلخ نوائی (diatribe)میں بھی ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت میں یہ پورے یورپ اور امریکہ میں بے حد مقبول ڈرامہ رہا اور آج بھی ناقدین کی اکثریت اس ڈرامے کو شاہکار قرار دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کو بے حد خراب ڈرامہ کہنے والے اور خاص کر Robot سیریز کے شہرہ آفاق مصنف Isaac Asimovنے چاپیک کی اصطلاح Robot کو دنیا بھر میں متعارف کرانے پر دل کھول کر داد دی۔
سیمیں کے اس موضوع پر دو افسانے مجھے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، جن میں“You may kiss the bride now” اور ” پیمپرز “ شامل ہیں۔ اول الذکر افسانہ تو اس موضوع سے چھوتا ہوا، انسان کی جانوروں کے ساتھ مباشرت سے رغبت کی کہانی کی طرف نکل جاتا ہے۔جب تک کہ موخر الذکر میں سیمیں نے خوب رچ کے اور دھماکہ خیز انداز میں روبوٹس اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس (Artificial Intelligence) کے دور میں عورت کے آلات تولیدہ کی بھی ایک نئی مشینی ساخت کی ایجاد کو اپنے افسانے کے بنیادی تھیم کا حصہ بنایا ہے۔ سیمیں نے لگتا ہے کہ خاص طور پر سائنس فکشن سے متعلق تمام جدید ایجادات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد یہ افسانہ لکھا ہے۔
سیمیں کے افسانوی آرٹ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف ان کی انفرادی اندرون ذات کے بے پناہ کرب آمیز، تلخ اور ترش لہجے کا مظہر ہے۔ لیکن دراصل یہ خاص طور پر انتہائی منتشر اور بے لگام، خود فریب، خود غرض، بے رحم (Ultra Rational Materialistic) عہد کی بھی کھلی داستان ہے۔ سیمیں اس طرح آج کے جدید اردو افسانوی ادب میں اس شوریدہ سر عہد کی ہیجان خیز اقدار اور Conflicts کے انسانوں اور انسانیت پر شدید مہلک اثرات کی نشاندہی کرنے میں، بلاتخصیص جنس، کسی بھی مقتدر افسانہ نگار سے کم نہیں۔ سیمیں اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ لاشعوری طور پر میں اپنی تخلیقات میں کس سمت نکل پڑی ہوں اور میری منزل کہاں نکلے گی۔ ان کی اس بات میں مجھے سچائی بھی نظر آتی ہے۔ کیوں کہ ان کے جتنے افسانے میں نے پڑھے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک ساتھ لاتعداد وسیع اور بہت مشکل موضوعات کو ایک بہت بڑے کینوس، بلکہ مورال پر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں منٹو کیStark Realism اور جنسیت کے رنگ بھی شامل ہیں، لیکن اس کے علاوہ عالمی مصوری اور مصوروں کے آفاقی رنگ، تکنیک اور موضوعات کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ ان میں مقدس بائبل کی کہانیوں کے علاوہ قرآنی استعارے بھی آپ کو سیمیں کے بڑے افسانوی کینوس پر مل جائیں گے۔ کچھ لطیف سی رومانیت بھی ان کی ان کہانیوں میں موجود ہے۔ عالمی مصوری اور مصوروں سے منسوب تحریکوں کے بھی ان پر اثرات کی کمی نہیں۔ ان میں Neo-Realism، Impressionism، Expressionism، Abstract اور Surrealism شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیمیں بعض افسانوں میں بطور اعلیٰ درجے کی Street smart گرافٹیی آرٹسٹ بھی نظر آتی ہیں جو تعفن زدہ گلیوں، سڑکوں کے کوڑے دانوں اور بوسیدہ گٹروں سے ملحق دیواروں پر Social and political protest کے تند وتیز نعرے اور عورتوں اور بچیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے اور ان کو ریپ کر کے قتل کرنے والے درندہ صفت مجرموں کی مہیب صورتیں بناتے ہوئے ان کو سر عام پھانسی دینے کے مطالبات پینٹ کرتی جا رہی ہیں۔
سیمیں نے اپنے افسانوں میں پنجابی لفظیات اور محاوروں کے ساتھ کلاسیکی اردو کے لفظیات اور محاورں، تمثیلوں اوراشعار کی آمیزش اپنے بیانیے میں شامل کی ہے، جو انتہائی خوب صورت لگتی ہے۔ انہوں نے بیانیہ افسانوں کی لکھت میں خاص کر ایک Splicing نامی تکنیک اور گرامر کے استعمال کا تجربہ کیا ہے جو شعور کی رو (Stream of Conscious) سے وابستہ ناولوں میں تو دنیا بھر میں مستعمل ہے اور قرة العین حیدر کے ”آگ کے دریا“ کے بعد آج تک متعدد اُردو ناولوں میں دیکھی جا رہی ہے، لیکن اس کا استعمال دنیا بھر کے افسانوی ادب میں بہت ہی کم ملتا ہے۔ کیوں کہ اس طرز کی لکھت میں Punctuation کے مروجہ اصولوں کی پاس داری کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے قارئین کو بھی اس کو بڑی توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیمیں نے اپنے اکثر افسانوں کو ان کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسی Splicing تکنیک سے کام لیا ہے اور ماننا پڑے گا کہ وہ اس میں شان دار طریقے سے کامیاب ہوئی ہیں۔
سیمیں خان درانی کے مندرجہ ذیل افسانے میں نے پڑھے ہیں، جن پر فرداً فرداً میری مختصر ترین رائے یہ ہے:
پگڑی: یہ Neo-Realism کی بہترین مثال ہے۔ اس میں منٹو کے Trade Mark Crisp end کے ساتھ جارحانہ Feminist Tone بھی ہے۔
ادھورے لمس: یہ انٹرنیٹ پر شروع ہونے والی ایک حسین عورت (جو خود کو تصور میں بانجھ سمجھتی ہے ) اور ایک بدصورت آدمی کی کہانی ہے۔ اس کا پلاٹ بہت منظم ہے۔ یہ اردو کے جدید نفسیاتی افسانوں میں بہترین افسانہ شمار ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ موپساں، چیخوف، اوہنری اور منٹو کا خوب صورت ڈرامائی اختتام اس میں بھی پایا جاتا ہے۔
آئیٹم گرل: سیمیں کی اس کہانی کی ہیروئن انتہائی غربت اور افلاس کے ماحول میں پلنے والی ایک حسینہ کی کہانی ہے، جو اوائل عمر سے ہی اپنے قریب ترین رشتے دار کی جنسی ہوس کا شکار ہوتی اور پھر وہ اہل منبر سے لے کر Gay لوگوں کے جنسی تجربات کی ایک بے حس مشین بن جاتی ہے۔ سیمیں نے اس کو اپنے تجریدی، اظہاری اور حقیقت پسندی کے گہرے تاریک رنگوں میں اپنے افسانوں کے کینوس پر اُتارا ہے۔
وجود: کہنے کو یہ زیتون نامی ہیروئن کی کہانی ہے، لیکن علامتی طور پر یہ تین، چار نسلوں کے کردار کا خوب صورت فیملی ساگا ہے۔ اپنی پوری زندگی کے رویوں اور مذہبی، آزادانہ اور لادینی نظریات کی Conflicts کے ساتھ قرة العین حیدر کی شعور کی رو Stream of Consciousness کی تکنیک اس میں عروج پر نظر آتی ہے۔ اس کا اختتامیہ نہایت ہی شان دار ہے۔
چندہ: اس کہانی میں بھی سیمیں ہمیں منٹو اور کرشن چندر کی برہنہ حقیقتوں پر مبنی کہانیوں کے قریب نظر آتی ہیں۔ یہ ایک پاگل عورت کے کوڑے دان کے قریب بچہ جننے کی عبرت ناک داستان ہے۔
You may kiss the bride now: یہ چارلس اور پامیلا جوڑے کی مشینی دور میں روبوٹس اور Artificial Intelligence انسانوں کی پیداوار کے پس منظر میں افراد کی بے کاری اور تنہائی سے منتشر شدہ جذبات کے کیتھارسس کے لیے جانوروں کے ساتھ مباشرت کی جانب رجحان اور اُس کی اہل منبر کی طرف سے اجازت کی داستان ہے۔
بلاعنوان: یہ دراصل سیمیں کی جانب سے ان کی عزیز ترین ہستی یعنی ماں کی وفات کا نوحہ ہے۔ اس میں پراثر خطابت کا انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ سے گلہ شکوہ بھی ہے کہ ان کی ماں جیسی پاک باز اور نیک ہستی کو اگر اتنی جلد اپنے پاس بلانا ہی تھا تو ان کو پیدا ہی کیوں کیا تھا۔ اس کہانی کو پڑھ کر مجھے Keen نامی آئرش رسم کا گمان ہوا، جو کسی وکٹورین ناول کے ایک منظر میں ہیروئن کی ماں کے جنازے کے وقت پادریوں نے بہت موثر طور پر تبلیغی انداز میں ادا کی تھی۔
ان افسانوں کے علاوہ مجھے ان کے ایک افسانے کے مطالعہ کرنے کا موقع بھی ملا جس میں بائبل کی کہانیوں کو جدید خوب صورت استعاروں کی صورت میں لکھا گیا ہے۔
اُمید ہے کہ سیمیں کے ان افسانوں کے اس سرسری جائزے کی روشنی میں قارئین اور ناقدین ان کو انہماک اور دلچسپی سے پڑھنے میں سہولت محسوس کریں گے اور سیمیں کے افسانوی آرٹ کی دلکش خوبیوں، رعنائیوں اور برہنہ حقیقتوں کے واشگاف اظہار سے محظوظ ہوں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*