لکھت لکھواتی ہے

میں ایک پیشہ ور لکھاری ہوں۔

منظروں سے اپنی لکھت کشید کرتا ہوں۔خاموشی میں دبی سسکیوں کو سنتا ہوں،آہوں کا مطلب سمجھتا ہوں،بند آنکھوں کے خوابوں کو دیکھ سکتا ہوں،درد سے بلکتے انسانوں کی نہ نکلنے والی چیخوں کو سنتا ہوں اور پھر انہیں لکھتا ہوں۔

میں ان آنسووں کو دیکھ سکتا ہوں جو بہے نہیں ہوتے۔میں برف جیسے سرد لوگوں کو بھی جانتا ہوں۔ان کے سرد رویوں کو بھی سمجھتا ہوں۔میں کسی کے برے ہو جانے کے مسائل سمجھ سکتا ہوں اور انہیں سلجھا بھی سکتا ہوں۔میں نے ہمیشہ انسانوں سے پیار کیا ہے،انہیں اپنا سمجھا ہے۔دنیا کے تمام انسان میری لکھت کا خام مال ہیں۔گہری نیند میں گم بلکتے انسان اور ان کی بند آنکھوں میں جاگتے خواب،سب میرے وجود کا حصہ ہیں۔یہ سب لوگ میری قلم کی نوک پر ہیں۔میں جسے چاہوں،جیسے چاہوں درج کرسکتا ہوں۔کسی کو زندہ کردوں ،کسی کومٹادوں،یہ سب مجھ پر ہے۔یہ سب مجھے اس لیے عزیز ہیں کہ ان کی بدولت میں خود زندہ ہوں اور میرے پیارے بھی۔میں ان کے درد کو اپنی لکھت بنا کر بیچتا ہوں اور پیسے کماتا ہوں۔اگر دنیا میں درد مٹ جائے تو اس کا سب سے بڑا نقصان میرے جیسے لیکھک کا ہی ہوگا۔

میرے پڑھنے والے کہتے ہیں کہ میں درد شناس ہوں،مجھے درد رقم کرنے آتے ہیں۔لوگ میری لکھت کو پڑھ کر بہت عرصے تک اس کے اثر سے نکل نہیں پاتے۔میں حقیقتوں کو روندتا،درد کی گھاٹیوں میں اترتا،تکلیف کی گہرائیوں میں ٹھہرنے کا فن جانتا ہوں۔

کچھ عرصے سے میں کچھ نہیں لکھ پارہا۔شاید ایسا تب ہوتا ہے جب میں نے کسی نئے شاہکار کو وجود میں لانا ہوتا ہے۔میں اس عمل میں ایک عجیب سی بے معنویت کا شکار ہوجاتا ہوں۔کوئی بھی منظر،کوئی بھی چہرہ،کوئی بات مجھے لکھنے پر مجبور نہیں کر پا رہی۔مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور لکھنا ان پیسوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

آج میرے پیارے بیٹے نے مجھ سے پہلی مرتبہ کسی چیز کی فرمائش کی ہے۔اسے ایک ویڈیوگیم چاہیے۔میں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ آج میں اسے وہ دلواکر رہوں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔گو مجھے معلوم ہے کہ وہ کوئی ضدی بچہ نہیں ہے۔بہت فرمانبرداراور صابر ہے۔ہم نے زندگی کے کئی دن ایسے بھی گزارے ہیں جب ہمارے گھر کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن میرے بچے نے کبھی مجھ سے شکایت نہیں کی۔

سڑک کے دوسری طرف ایک ہجوم کھڑا ہے۔شاید کسی گاڑی نے کسی کو کچل دیا ہے۔ ارے!یہ ایک بچہ ہے جو سڑک کے درمیان درد سے تڑپ رہا ہے۔وہ بری طرح لہو لہان تو ہے لیکن اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔اس کا بستہ جو پاس ہی پڑا ہے خون میں لت پت ہے۔وہ درد کے مارے بار بار کروٹیں بدلتا ہے کبھی دائیں کبھی بائیں۔کبھی اپنا پیٹ پکڑتا اور کبھی سر۔سب لوگ دائرے کی صورت میں کھڑے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح دم توڑتا ہے اور میں،لکھنا جس کا پیشہ ہے سوچ رہا ہوں کہ ایسا موقع پھر نہیں ملے گا۔میری انگلیاں لکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔میں زمین پر بچے کے پاس ہی دو زانو بیٹھ گیا ہوں۔میں نے تیزی سے قلم کاغذ نکال کر لکھنا شروع کر دیا ہے۔میں اس بچے کے منہ سے نکلنے والی آہ اور اس کا درد لکھنے لگا ہوں۔میں لکھنے لگا ہوں کہ موت اور زندگی کی لڑائی کیسی ہوتی ہے؟کیسے انسان خود کو موت کے پاس جانے سے روکتا ہے اور کیسے موت اس کو اپنے قریب گھسیٹتی ہے۔

اچانک مجمع میں سے ایک شخص نمودار ہوتا ہے۔وہ ایک کمزور سا نوجوان ہے ،آنکھوں کے گرد بڑی سی عینک،ہاتھ میں ایک کاغذ اور پنسل ہے۔اس نے بچے کے سامنے بیٹھ کر اس کی تصویر بنانی شروع کر دی ہے۔ایسی درد بھری اور حقیقی تصویر بنانے کا موقع اسے شاید پھر کبھی نہ ملے۔ اس کی پنسل بڑی تیزی کے ساتھ اسکیچ بنارہی ہے۔وہ بچے کی ایک ایک تکلیف کی تصویر کاغذ پر اتار رہا ہے۔اِدھر میں درد کو لفظوں میں پرو رہا ہوں اور اُدھر وہ لکیروں کے ذریعے درد کی شکلیں بنارہا ہے ۔ہم دونوں اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔مجمع ساکت ہے اور بچہ تڑپ رہا ہے۔

کچھ اور لوگ بھی دھکم پیل کرتے ہوئے بچے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ہر طرف سے کیمروں سے تصویریں کھینچنے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔تصویروں کے لیے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے اور تڑپتے بچے کی مسلسل حرکت کی وجہ سے وہ فوکس نہیں کر پا رہے ہیں۔ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں کہ ایک شخص نے مائیک پکڑ کر کیمرے کے سامنے بولنا شروع کر دیا ہے:”آج کلمہ چوک میں سڑک پر ایک آٹھ سالہ بچے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ منچلے نوجوانوں نے اس مصروف سڑک پر کارریسنگ کا مقابلہ رکھا تھا۔ یہ بچہ باری باری تین کاروں کی زد میں آیا ہے۔ کہا جاتا ہے اس میں سے ایک کار حساس ادارے کے اعلیٰ افسر کے صاحبزادے کی بھی تھی۔ بچہ ابھی زندہ ہے لیکن بری طرح زخمی ہے۔آپ اپنی ٹی وی سکرین پر بچے کو تڑپتا دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اس کے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بول نہیں پا رہا ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے ٹریفک جام ہو چکی ہے اور لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ سب حکومت کی ناکامی کو منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیمرہ مین فلاں کے ساتھ، میں فلاں،فلاں نیوز چینل، اسلام آباد”

میں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جب تک بچہ آخری سانس نہیں لیتا میں لکھنا نہیں چھوڑوں گا۔ کبھی کبھار وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتا ہے لیکن میں ان نظروں کو مفہوم سمجھنا نہیں چاہتا۔میں صرف لکھنا چاہتا ہوں۔

اچانک وہ اپنا خون آلود ہاتھ میرے کاغذ کے اس ڈھیر پر رکھ دیتا ہے جو میرے گھٹنوں پر دھرے ہیں۔میں تھوڑا ناراضگی کے انداز میں اس کی طرف دیکھتا ہوں۔ شاید یہ اس کی آخری سانس تھی۔میرا قلم رک جاتا ہے۔تصویریں اور رپوٹیں مکمل ہوچکی ہیں۔ فوٹوگرافر چلے گئے اور ٹی وی والے اپنا سامان باندھ رہے ہیں۔ مجمع پہلے کی طرح ساکت ہے۔میں اس خون بھرے ہاتھ کو غور سے دیکھنے لگتا ہوں جو اب بھی میرے گھٹنوں پر دھرا ہے۔وہ ایک چھوٹا سا نرم ہاتھ ہے۔ جس کے ناخن بڑی نفاست سے ترشے ہوئے ہیں۔

"کل ہی تو اس کی ماں نے اس کے ناخن کاٹے ہیں” یہ شاید میری آواز ہے۔

"یہ وہی ہاتھ ہیں جنہوں نے ہمیشہ مجھے بڑی مضبوطی سے تھامے رکھا تھا۔ انہی ہاتھوں کو پکڑ کر میں نے اسے چلنا سکھایا تھا۔ اسے پنسل پکڑنی سکھائی تھی۔ انہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر میں نے کئی بار اس سے پنجہ لڑایا تھا،پھر جان بوجھ کر ہارا تھا ۔نہیں، یہ بے جان ہاتھ میرے بیٹے کے نہیں ہیں۔ یہ تو کہانی کا کردار ہے۔ ایک رپورٹ، ایک خبر اور ایک تصویر ہے۔”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*