ننھے نصیر کی پریشانیاں

"ابّا کے ساتھ سودا سلف لانا”

رات کےکھانے کے بعد امّاں اور ابّا مہینے کے اخراجات کا حساب کرنے بیٹھ گئے۔

ابّا بولے، "میں آج تک سمجھ نہیں سکا کہ میں جو پیسے تمہیں دیتا ھوں، وہ آخر جاتے کہاں ہیں ؟”

امّاں بولیں، "جب آپ ایسی باتیں کرتے ہیں تو قسم سے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔” حالانکہ امّاں کے چہرے سے بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ اس وقت انہیں ابّا اچھے لگ رہے تھے۔

پھر انہوں نے ابّا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ گھر کے سودا سلف پر کتنے پیسے لگتے ہیں اور اگر وہ خود ایک مرتبہ بازار سے سودا خرید لائیں تو ان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ آخر میں انہوں نے یہ کہا کہ ایسی باتیں بچّے کے سامنے نہیں کرنا چاہئیں۔

ابّا نے کہا کہ یہ سب عورتوں کی کہانیاں ہیں اور اگر وہ خود بازار سے سودا لانے لگیں تو نہ صرف اعلیٰ معیار کی چیزیں گھر آئیں گی بلکہ گھر کے اخراجات میں اچھی خاصی بچت بھی ہو گی۔ اور جہاں تک بچّے کا تعلق ہے تو اس کے سونے کا وقت ہو چکا ہے۔

اس پر امّاں نے کہا، "اچھا، ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے، آپ اتنے چالاک ہیں تو اب آپ ہی سودا لائیں گے۔”

ابّا نے جواب دیا، "بالکل ٹھیک ہے۔ کل اتوار ھے۔ کل میں اتوار بازار جاؤں گا اور خود سودا لاؤں گا۔ کل تمہیں معلوم ہو گا کہ خریداری کیسے کرتے ہیں اور بچت کیسے کرتے ہیں۔”

میں نے کہا، "زبردست ! ابّا، میں بھی چلوں آپ کے ساتھ ؟” ابّا نے مجھے سونے بھیج دیا۔

اگلی صبح میں نے ایک مرتبہ پھر ابّا سے پوچھا کہ کیا میں بھی ان کے ساتھ بازار جا سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں۔ آج گھر کے مرد ہی یہ کام کریں گے۔ میں بہت خوش ہوا کیونکہ مجھے ابّا کے ساتھ بازار جانا بہت اچھا لگتا ہے اور اتوار بازار تو ویسے بھی مجھے بہت پسند ہے۔ بازار میں بہت سے لوگ ہوتے ہیں اور ہر طرف شور مچا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ بالکل جیسے ہمارے سکول میں آدھی چھٹی کے دوران۔ ابّا نے مجھے سودے والی ٹوکری اٹھانے کو کہا۔ امّاں نے دروازے سے ہمیں خداحافظ کہا۔ معلوم نہیں وہ کیوں ہنس رہی تھیں۔

ابّا بولے، "ہاں ہاں، تم ہنستی رہو ! میں دیکھوں گا کہ تم اس وقت کیسے ہنسو گی جب ہم بہترین چیزیں بہترین داموں میں لے کر واپس لوٹیں گے۔ یہ مردوں کے کام ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ دکاندار جو بھی قیمت مانگے اس کے ہاتھ میں تھما کر چلتے بنیں۔ کیوں، نصیر ؟”

میں بولا، "اور نہیں تو کیا !”

امّاں ہنستی رہیں۔ پھر وہ بولیں کہ وہ بڑی دیگچی میں جھینگا مچھلی پکانے کے لئے پانی گرم کرنے چلی ہیں۔ میں اور ابّا گیراج کی جانب چل دئے۔

جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو میں نے پوچھا کہ کیا واقعی ہم جھینگا مچھلی لائیں گے۔ ابّا بولے، "ہاں، لائیں گے کیوں نہیں بھلا ؟”

بازار پہنچتے ہی پہلا مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ گاڑی کہاں کھڑی کریں۔ لگتا تھا سارا شہر ہی بازار پہنچ گیا ہو۔ خوش قسمتی سے ابّا کو ایک خالی جگہ دکھائی دی اور انہوں نے فوراً وہاں گاڑی کھڑی کر دی۔ میرے ابّا کی نگاہیں بہت تیز ہیں، ہر چیز دیکھ لیتے ہیں۔

ابّا بولے، "آج ہم تمہاری امّاں کو دکھا دیں گے کہ سودا سلف کی خریداری کیسے کی جاتی ہے اور کیسے پیسے بچائے جاتے ہیں۔ کیوں، ٹھیک ہے نا، جوان ؟”

پھر ابّا ایک دکاندار کے سامنے جا کھڑے جو ہر قسم کی ڈھیروں سبزیاں بیچ رہا تھا۔ ابّا نے سبزیوں پر ایک نگاہ دوڑائی اور کہا کہ آج ٹماٹر سستے ہیں۔

ابّا نے کہا، "ہاں بھئی، ایک کلو ٹماٹر دے دو !”

دکاندار نے ٹوکری میں پانچ ٹماٹر ڈال دئے اور کہنے لگا، "اور اس کے علاوہ کیا لیں گے ؟”

ابّا نے ٹوکری میں دیکھا اور بولے، "ارے ؟ ایک کلو میں صرف پانچ ٹماٹر ؟”

دکاندار بولا، "تو اتنے پیسوں میں آپ کیا چاہتے ہیں، ٹماٹروں کی پوری بوری دے دوں ؟ آپ جیسے صاحب لوگ جب پہلی مرتبہ سبزی لینے آتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔”

ابّا بولے، "صاحب لوگ نہیں، ان کی بیویاں ہوتی ہیں جنہیں تم جیسے دکاندار اپنی مرضی کی قیمت لگا کر لوٹ لیتے ہیں !”

"کیا کہا ؟ ذرا پھر سے کہیں ؟” دکاندار ایک قدم آگے بڑھ کر بولا۔ اس کی شکل ہمارے محلّے کے قصائی سے ملتی جلتی تھی۔

ابّا بولے، "اچھا، بس رہنے دو !” یہ کہہ کر انہوں نے مجھے ٹوکری تھمائی اور ہم آگے بڑھ گئے۔ سبزی والا دکاندار ہمارے پیچھے ہماری طرف ہاتھ سے اشارے کرتا دوسرے دکانداروں سے باتیں کرتا رہا۔

اچانک میری نظر ایک دکان پر پڑی جہاں دوسری مچھلیوں کے ساتھ بڑی بڑی جھینگا مچھلیاں بھی پڑی تھیں۔ میں چہخا، "ابّا، وہ دیکھیں ! جھینگا مچھلی !”

ابّا بولے، "بہت خوب ! چلو دیکھتے ہیں۔” ابّا دکان کے قریب پہنچے اور مچھلی والے دکاندار سے پوچھا کہ کیا یہ جھینگا مچھلی تازہ ہے ؟ دکاندار نے کہا بہت خاص مچھلی ہے۔ اور جہاں تک ان کی تازگی کا تعلق ہے تو ہاں تازہ ہی ہوں گی کیونکہ ابھی تک تو جھینگا مچھلیاں زندہ تھیں اور پھر وہ ہنسنے لگا۔

ابّا بولے، "اچھا ٹھیک ہے۔ اس مچھلی کی قیمت کیا ہے ؟ ۔ ۔ ۔ وہ بڑی والی جو ہل رہی ہے ؟”

دکاندار نے قیمت بتائی تو ابّا کی آنکھیں گول ہو کر باہر نکلنے لگیں۔

ابّا نے پوچھا، "اور وہ دوسری۔ ۔ ۔ وہ چھوٹی والی ؟”

دکاندار نے دوسری مچھلی کی قیمت بتائی تو ابّا کہنے لگے کہ انہیں یقین نہیں آ رہا اور بہت شرم کی بات ہے۔

دکاندار نے پوچھا، "آپ کہیں چنگری جھینگا تو نہیں چاہتے ؟ وہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور سستا بھی۔ بہت فرق ہوتا ہے ان کی قیمت میں۔ لگتا ہے آپ کی بیگم صاحبہ نے ٹھیک سے بتایا نہیں آپ کو !”

ابّا بولے، "چلو، نصیر، کچھ اور دیکھتے ہیں۔”

لیکن میں نے ابّا سے کہا کہ کہیں اور نہیں جائیں گے۔ مجھے یہ ہلتی ہوئی جھینگا مچھلیاں اچھی لگ رہی ہیں۔ اور ویسے بھی مجھے جھینگا مچھلی بہت پسند ہے۔

ابّا بولے، "بحث مت کرو۔ ہم جھینگا نہیں خریدیں گے۔ بس کہہ دیا نا !”

"لیکن ابّا، اماّں جھینگوں کے لئے پانی بھی گرم کئے بیٹھی ہوں گی۔ ہمیں جھینگا خریدنا ہی ہو گا۔”

"نصیر، اگر تم نے بحث کرنا بند نہ کیا تو میں گاڑی میں تمہارے کان کھینچوں گا۔”

میں رونے لگا، ہاں تو ٹھیک ہی تھا، یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا۔

دکاندار بولا، "بہت خوب، صاحب۔ ایک تو آپ پرلے درجے کے کنجوس ہیں، دوسرے آپ اپنے گھر والوں کو بھوکا ماریں گے اور الٹا اس بیچارے بچّے کو بھی بلاوجہ ڈانٹ دیا !”

ابّا چیخے، "اپنے کام سے کام رکھو، میاں ! واہ، یہ بھی خوب رہی، اب چور مجھے کنجوس کہے گا !”

اس پر دکاندار بھی چیخا، "چور ؟ اور میں ؟ میں بتاؤں آپ کو چور کا مطلب ؟” یہ کہتے ہی اس نے اپنے ہاتھ میں ایک چپٹی مچھلی اٹھا لی۔

ساتھ کھڑی ایک خاتون بول اٹھیں، "ہاں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ تم نے کل جو مچھلی مجھے بیچی تھی وہ بالکل باسی تھی۔ اسے تو میری بلّی نے بھی کھانے سے انکار کر دیا تھا۔”

دکاندار ایک مرتبہ پھر چیخا، "میری مچھلی اور باسی ؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا !”

تھوڑی ہی دیر میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ دکاندار ہاتھ میں پکڑی چپٹی مچھلی ادھر ادھر ہلاتے ہوئے بولتا رہا۔ ہم چپکے سے وہاں سے چلے آئے۔

ابّا بولے، "بس بہت ہو گیا۔ گھر واپس چلتے ہیں۔” ابّا کافی پریشان اور تھکے ہارے لگتے تھے۔ ہمیں بازار آئے بہت دیر ہو چکی تھی۔

"لیکن ابّا، ابھی تو ہم نے صرف پانچ ٹماٹر ہی خریدے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم ایک جھینگا۔ ۔ ۔ ”

لیکن ابّا نے مجھے بات مکمل کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔ انہوں نے میرا کان پکڑ کر کھینچا۔ میں پیچھے کو ہٹا تو سودے والی ٹوکری میرے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جا گری۔ یہیں پر بس نہ ہوا۔ ایک موٹی سے خاتون ہمارے پیچھے آ رہی تھیں۔ ان کا پیر ٹوکری پر پڑا اور "چپڑچوووک” کی آواز آئی۔ انہوں نے مڑ کر مجھے دیکھا اور کہا، "بیٹا، ذرا دھیان سے چلا کرو !” میں نے ٹوکری اٹھائی اور اس کے اندر جھانکا۔ اندر جو کچھ پڑا تھا اسے دیکھ کر میری بھوک مر گئی۔

میں نے ابّا سے کہا، "ابّا، ہمیں واپس جا کر دوبارہ پانچ ٹماٹر خریدنا ہوں گے۔ یہ پانچ تو کام سے گئے !”

ابّا نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور ہم گاڑی کے پاس پہنچ گئے۔

وہاں بھی ابّا خوش نہ ہوئے کیونکہ گاڑی کی سکرین پر "نو پارکنگ” کے چالان کی پرچی چپکی تھی۔ ابّا کو "نو پارکنگ” کا بورڈ دکھائی نہ دیا تھا۔

وہ بولے، "یہ سب بھی آج ہی ہونا تھا !”

ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور ابّا نے گاڑی سٹارٹ کی۔

اچانک ابّا پھر سے چیخے، "ارے، ٹوکری تو دھیان سے پکڑو ! پچکے ہوئے ٹماٹروں کا رس میری پتلون پر گر رہا ہے ! دیکھو تو تم کیا کر رہے ہو !”

اور یوں ابّا نے اپنی گاڑی پیچھے سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک میں دے ماری۔ بالکل، یہ سب بھی آج ہی ہونا تھا۔

جب ہم ورکشاپ میں گاڑی چھوڑ کر نکلے (نہیں نہیں، کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کل تک آپ کی گاڑی بالکل ٹھیک ہو جائے گی) تو ابّا کا موڈ بالکل ٹھیک نہیں تھا۔

اس ٹرک کے ڈرائیور نے بھی تو ابّا کو عجیب عجیب سی باتیں کہیں تھیں۔ شاید ابّا کا موڈ اسی وجہ سے خراب تھا۔

گھر پہنچے تو امّاں نے سودے والی ٹوکری دیکھ کہ کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ ابّا چلّا اٹھے کہ خبردار کسی نے کوئی ایک بھی لفظ منہ سے نکالا ہو تو۔ چونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا اس لئے ابّا ہمیں ٹیکسی میں بٹھا کر ریسٹورانٹ لے گئے۔ ریسٹورانٹ بہت زبردست تھا۔ ابّا کو تو بھوک نہ لگی تھی لیکن میں نے اور امّاں نے کریم میں تلی جھینگا مچھلی خوب مزے لے کر کھائی۔ امّاں نے کہا کہ تمہارے ابّا ٹھیک ہی کہہ رہے تھے کہ بچت کرنا بھی کسی کسی کا کام ہے۔

میں تو دعا مانگ رہا ہوں اگلے اتوار بھی ابّا مجھے اپنے ساتھ سودا لینے لے جائیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*