غزل

پروں پر لاد کر جگنو اڑی ہوں اوڑھ کر بدلی
میں رہتی ہوں پرستاں میں، نہیں ہوں میں کوئی لڑکی

میں بچپن سے تھی کٹھ پتلی، یہ قصہ میں نہیں بھولی
ذرا سوچو ذرا سوچو، میں گڑیا سے نہیں کھیلی

میرا ہر درد بہنے دے، جو کہنا ہے وہ کہنے دے
میں کب سے کچھ نہیں بولی، میں کب سے کچھ نہیں بولی

محبت کیوں نہیں ملتی، میرے سائیں، میرے اللہ
میری آنکھیں بھی ہیں خالی، میری جھولی بھی ہے خالی

میں برسوں سے اکیلی ہوں اندھیرے کی سہیلی ہوں
میری آنکھوں میں کالک ہے کہ راتیں ہیں بہت کالی

محبت ہے مجھے تجھ سے، میں کب انکار کرتی ہوں
مگر میں پاس کیا آؤں کہ تیری آنکھ ہے میلی

میں باہر سے بھی گہری ہوں میں اندر سے بھی گہری ہوں
مگر میں حد میں رہتی ہوں، میں آنکھوں تک نہیں پھیلی

مجھے تمثیل جانا ہے، یہاں کس کا ٹھکانہ ہے
بلاتی ہے مجھے کب سے وہی مٹی بھری تھالی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*