جوں

ایک تھا جُوں۔ وہ بے شمار بچوں کے سر میں گُھستا اور اُن کا خون چوستا ۔ ایک روز وہ اس نیت سے ایک بچے کے سر سے باہر نکلا کہ کسی دوسرے بچے کے سر پر جاؤں گا ۔ راستے میں اُسے ایک مرغے نے دیکھا۔مرغے نے چونچ بڑھائی کہ کھاؤں گا۔ مگر،جوں بولا۔ ’’ایک بار مجھے نہ کھا، آؤ میں اور تم ایک شرط لگاتے ہیں۔ جو شرط جیتا وہ دوسرے کو کھالے ‘‘۔ مرغے نے بات مان لی۔
جُوں نے دال ابالی۔دوبڑی پلیٹوں میں ڈالی، ایک پلیٹ اپنے سامنے رکھی اور دوسری مرغا کے سامنے ۔ اور کہا اگر تم نے اپنی دال پہلے ختم کی تو مجھے کھالو، اگرمیں نے پہلے ختم کی تو میں تمہیں کھالوں گا۔ مرغا چونچ مارنے لگا۔ ٹک ٹک، اور، ٹک ٹک ۔ اُس کی چونچ تھال پر لگتی رہی ۔ جوں نے ایک ہی بار تھال چاٹ کر ختم کردی۔ کہا ’’اب میں تمہیں کھالوں گا‘‘۔ مرغا حیران ہوا۔ جوں نے مرغا کھالیا او رروانہ ہوا۔
دیکھا ایک بڑھیا بیٹھی دری بنارہی ہے۔ کہا، بڑھیا میں تمہیں اور تمہاری دری کو کھا جاؤں گا‘‘۔ بڑھیا نے کہا تم آگے تو آؤ میں تمہیں
دری بنانے والی ’’ ڈپی‘‘ ماردوں گی، تم پھٹ کر مروگی، جوں نے کہا
’’ دال دبیلی کھا چکا ،
ککڑو مرغا کھا چکا،
تمہیں کیسے چھوڑوں گا۔
اس نے بڑھیا کو دری کے ساتھ کھالیا۔ آگے بڑھا ۔ دیکھا ایک چرواہا بکریوں کا ریوڑ چرارہا ہے۔اُسے آواز دی ’’ او چرواہا۔ میں تمہیں تمہارے ریوڑ کے ساتھ کھالوں گا‘‘۔ چرواہا بولا ’’تم پاگل ہوگئے ہو۔ تم تومیری ایک لاٹھی کی مار ہو۔ وہ بولا
’’ دال دبیلی کھا چکا،
ککڑ مرغا کھا چکا،
بڑھیا دری کو کھا چکا،
تو تمہیں کیسے چھوڑوں گا ؟۔
اس نے چرواہے کو مویشیوں کے ساتھ کھالیے۔ آگے گیا ۔دیکھا کہ گائیوں کے رَم کا گوپال گائیوں کے رم کووادی کی طرف لے جارہا ہے ۔ پکارا ’’ او گائیوں کے گوپال، میں آج تمہیں تمہاری گائیوں کے ساتھ کھا لوں گا‘‘۔ رم کے گوپال نے کہا ’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا، تم مجھے کیسے کھا سکتے ہو؟‘‘‘۔ جوں نے کہا
’’ دال دبیلی کھا چکا،
ککڑو مرغا کھا چکا
بڑھیا دری کھا چکا،
چرواہا ریوڑ کھا گیا
تمہیں کیسے چھوڑوں گا۔
اس نے گائیوں کا رم گوپال کے ساتھ کھا لیا۔ آگے گیا، دیکھا۔گھوڑوں کا گلہ ہے اور اُن کا سائیس ایک گھوڑی پر سوار ہے ۔
پکارا’’ او سائیس ! رک جاؤ میں تمھیں اور تمہارے گلے کو کھانے آرہا ہوں‘‘۔ سائیس بولا ’’ایک گھوڑی کی لات سہہ نہیں سکتے اور چلے ہو سارا گلہ کھانے ‘‘۔ وہ بولا:
’’ دال دبیلی کھا چکا،
ککڑو مرغا کھاچکا
بڑھیا دری کھا چکا،
چرواہا ریوڑ کھا گیا
گائیاں گوپال کھالیے
تمہیں کیسے چھوڑوں گا۔
اس نے گھوڑیوں کاگلہ اور سائیس کھا لیے اور آگے گیا۔ دیکھا کہ گدھوں کا چرواہا گدھوں کا ریوڑ چرارہا ہے۔ کہا ’’ او گدھوں کا چرواہا ( ہر پان)۔ میں تمہیں تمہارے سارے گدھوں کے ساتھ کھالوں گا‘‘۔
گدھوں کے چرواہے ( باہر پان) نے کہا۔ ’’آؤ ایک گدھے کی سُم کے نیچے پھٹ جاؤ گے ۔ مجھے تو تمہارا پورا خاندان مل کر بھی نہیں کھا سکتا ، تم کیاچیز ہو؟‘‘ ۔
اس نے کہا
’’ دال دبیلی کھا چکا،
ککڑو مرغا کھا مکایا
بڑھیا دری کھا چکا،
چرواہا ریوڑ کھا گیا
گائیاں گوپال کھالیے
گھوڑے سائیس کھالیے
تمہیں کیسے چھوڑوں گا۔
اس نے سارے گدھے اور اُن کے چرواہا کوکھالیا۔ اب جُوں بہت موٹا ہوگیا ۔ مگر پھر بھی اس کی بھوک نہ مٹی۔ اس نے دیکھا کہ اونٹوں کے ریوڑ ( بگ) کے دو چرواہے ( بگ جت) اِس طرف اور اُس طرف سے’’ ہُم ہُم‘‘ کرتے جارہے ہیں۔ جُوں نے کہا ، ’’چرواہو! میں تم لوگوں کو تمہارے اِس بہت بڑے ریوڑ کے ساتھ کھاؤں گا‘‘۔ چرواہوں نے کہا :’’ ہمارے اِس مست اونٹ کو دیکھتے ہو جو اپنا غبارہ نکالتا جاتا ہے اور اس کا منہ جھاگ سے بھرا ہے۔ یہ تم پر دانت گاڑدے تو تم پھٹ جاؤ گے۔
جوں بولا
’’ دال دبیلی کھا چکا
ککڑو مرغا کھا چکا
بڑھیا دری کھا چکا
چرواہا ریوڑ کھا گیا
گائیاں گوپال کھالیے
گھوڑے سائیس کھالیے
گدھے چرواہا کھا لیے
تمہیں کہاں چھوڑوں گا۔
اس نے اونٹوں کے ریوڑکو شتر بانوں کے ساتھ کھا لیا اوربڑی ڈکار ماردی۔ اب جُوں اس قدر مہیب اور بڑا ہوگیا تھا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوتا تھا کہ وہ جوں ہے۔ ہر شخص حیران تھاکہ یہ کیا بلا ہے ۔
اب اسے سخت پیاس لگ رہی تھی۔ وہ ہانپتے ہانپتے چشمے کی طرف گیا۔جونہی چشمہ پہنچا، منہ پانی میں رکھ دیا اور سارا پانی چوس لیا۔ چشمے کے پانی کے جونک اُس کے منہ اور نتھنوں میں چلے گئے اور چمٹ کر خون چوسنے اور گرانے لگے۔ چشمے کا پانی خون سے بھر کر بہنے لگا اور جوں بھی بہت بدحال ہونے لگا۔
ایک شکاری شکارکی تلاش میں گھومتے گھامتے چشمے کی طرف آ نکلا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی بلا پڑی ہوئی ہے اور چشمے کا ساراپانی خون ہی خون ہے۔ جوں نے جب شکاری کو دیکھا تو کوشش کی کہ اٹھے اور اُسے کھا جائے۔ مگر جونک تو اس کا سارا خون چوس چکے تھے او ر اُس کے منہ اور ناک سے جونکوں کا گرایا ہواخون نکل رہا تھا ، اور پانی کے ساتھ بہہ رہا تھا ۔ شکاری نے تلوار سے جوں کو قتل کردیا ۔ پھر خنجر سے اُس کا پیٹ چیر لیا۔ سارے جانور اُس کے پیٹ سے باہر نکلے اور شکاری کو نیک دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*