سنہری پہاڑ

برف سے ڈھکی اْس فلک بوس چوٹی کا نام سنہری پہاڑ کیوں پڑا اس بارے میں بیس کیمپ کی قریبی بستی میں کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ وہاں چاندنی راتوں میں چاند کے ساتھ ساتھ تمام ستارے بھی زمین کے بہت قریب آ جاتے۔ نیچے وادی میں دیودار کی لکڑی سے تعمیر گھروں اور اپنے آتش دانوں میں چیڑ کی خوشبودار لکڑیاں جلانے والے چرواہے وادی کے کنارے سے جھانکتے ستاروں کو دیکھ کر یہ سوچتے کہ اگر اس وقت وہ پہاڑ کی چوٹی پر موجود ہوتے تو ایک آدھ ستارہ توڑ لینا ان کی دسترس میں تھا۔ وہیں انہیں گلابی تلچھٹ کی مانند جلتے ہوئے روشن ستاروں کے جھرمٹ میں نیلگوں روشنیاں بھی نظر آتیں۔ صبح ہوتی تو کرنوں کا جھومر سفید برف پر سجا دیتی جب شام ہونے لگتی تو اس پہاڑ کا سایہ دور دور تک زمین پر اتر جاتا اور چوٹی غروب ہوتے سورج کی نارنجی کرنوں کو منعکس کرتی تو زمین کے ماتھے پر طلائی تاج کی مانند نظر آتی۔ بلند اور مغرور چوٹی دھیرے دھیرے بستی کے لوگوں میں متبرک حیثیت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ وہاں دور دراز سے کوہ پیما اور عام سیاح دشوار گزار راہوں اور سنگلاخ چٹانوں کو عبور کر کے پہنچتے تھے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ سنہری پہاڑ کی کسی غار میں آفاقیت کے بھید چھپے ہیں۔

انہیں کسی نے بتایا تھا کہ اگر جگ میں اْس بھید کی سلطنت ہوتی تو دنیا میں کوئی رنج نہ ہوتا۔ انسان پرندوں کی مانند ایک دیس سے دوسرے دیس بنا کسی رکاوٹ کے پرواز کرتے۔ چشمے صحراؤں میں بھی ابل پڑتے، درختوں پر دگنا پھل آتا اور کوئی جاندار قحط سے ہلاک نہ ہوتا۔

جفاکش کوہ پیما اس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کی تیاری کئی کئی ماہ کرتے اور ٹولیوں کی صورت میں سنگلاخ چٹانوں اور برفانی تودوں میں راستہ تلاش کرتے۔ اس بستی میں اْن کی حیثیت سورماؤں کی سی تھی۔کوہ پیمائی پر جاتے وقت انہیں دعاؤں کے حصار میں رخصت کیا جاتا اور واپس لوٹنے پر ان کی خوب پذیرائی کی جاتی۔

وہ لڑکی جس کا نام زِمل تھا ان راستوں میں کھڑی رہتی جہاں سنہری پہاڑ کو سر کرنے والے کوہ پیما گزرا کرتے تھے۔ وہ کبھی کوہ پیمائی کو نہ جا سکی نہ ہی اس کے پاس ایسے وسائل تھے مگر اْن رفعتوں کو بڑی محبت اور مرعوبیت سے تکتی اور جب بھی جفاکش کوہ پیما اس چوٹی کی جانب روانہ ہوتے تو سڑک کنارے کھڑی وہ انکی راہوں میں جنگلی پوپی کے پھول نچھاور کرتی۔ کئی کوہ پیما واپس نہ لوٹتے کوئی برفانی طوفان کا لقمہ بن جاتا تو کسی کو کھائیاں نگل جاتیں۔ جو چند کوہ پیما واپس لوٹتے ان کی جلد مجروح اور اعضاء مضمحل ہوتے مگر آنکھوں میں فتح مندی کی چمک ہوتی جو برف کے ذرات کو پلکوں پر یوں پہنے ہوتی جیسے افریقہ کے قبائلی شکاری اپنے شکار کیے ہوئے شیر کا دانت گلے میں پہنتے ہیں۔

ایک دن جب کوہ پیماؤں کی بڑی ٹولی سنہری چوٹی کو سر کرنے نکل چکی تھی اس لڑکی کو اتنا بڑا پوپی کا پھول ملا جو اس وادی میں کہیں اّگا ہی نہ تھا۔ اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ پھول کہاں نچھاور کرے۔

اس نے پھول ہاتھ میں تھاما تو اندازہ ہوا کہ اتنے بڑے پھول کی ٹہنی وہ ایک ہاتھ میں نہیں سنبھال سکتی۔ اس نے دونوں ہاتھوں کو دستِ دعا کی مانند جوڑ کر اْس عجیب ہمالیائی گْل لالہ کو تھاما اور محویت سے تکنے لگی۔

خشک موسم کے دوران ان کی بستی میں کئی بار پانی دور سے لانا پڑتا تھا۔ اس لیے وہاں پرانے وقتوں سے بزرگ گلیشئیر کی کاشت کرتے۔ نر اور مادہ گلیشئیر کی برف کو ملا کر اس پر اباسین کا پانی چھڑکتے،گندم کا بھوسہ پھیلاتے اور خدا سے مناجات کرتے تاکہ گلیشئیر بستی کو بہا لے جانے یا روند ڈالنے کی بجائے دائیں بائیں پھیلتا پانی کا ذخیرہ بنے۔

انہیں پہاڑوں اور برفانی تودوں پر مارخور چوکڑیاں بھرتے پھرتے اور کوہ پیماؤں کی بلندیاں سر کرنے کی فطرت کو دعوتِ مبارزت دیتے نظر آتے۔

انسان جسے ہر چیز پر فاتح بننے کا جنون ودیعت ہوا ہے کیسے مارخور کے فخر سے تنے سر اور مضبوط جثے کو گوارا کرتا۔ دھیرے دھیرے پہاڑوں پر مارخوروں کی تعداد گھٹنے لگی۔جس بستی نے پتھروں پر برف کے بیج بوئے تھے اپنے جانوروں کو پرستان جیسی چراہ گاہوں میں پھولوں سے بھری گھاس پر چرایا تھا وہیں اسی بستی میں رائفلیں اور شکاری بندوقیں دیواروں پر آویزاں نظر آنے لگیں۔ جن میں بل کھاتے سینگوں والے مارخوروں کے سر بھی حنوط کیے دیواروں کی زینت ہوتے۔

وہاں دنیا کے ہر کونے سے کوہ پیما تو آتے ہی تھے مگر مارخوروں کی شہرت کے بعد دنیا بھر کے سفاک شکاریوں کو ایک نئی اور دلآویز شکار گاہ میسر آ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں چوکڑیاں بھرتے مارخور نایاب ہو گئے۔ کئی کئی دنوں تک شکاریوں کو مارخور کا سراغ تک نہ ملتا۔ ایسے میں کچھ ذمہ دار لوگ سامنے آئے اور جانوروں کی نسل بچانے کے لیے آواز بلند کرنے لگے۔ بہت عرصہ ان کی صدا پہاڑوں کی گونج کی بجائے صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی مگر پہاڑوں کے پروردہ جو چٹانوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں برف کو برف کا خمیر لگاتے ہیں چپ چاپ کیونکر رہتے۔

قوانین بنے، لاگو ہوئے۔ بنا لائسنس شکار پر پابندی لگی اور مارخور کی نسل بچانے کے لیے کاوشیں ہونے لگیں۔

زِمل جو آئے دن محبت اور مرعوبیت سے کوہ پیماؤں ہی ٹولیوں کو سنہری پہاڑ کی کٹھنائیوں میں پڑتے فتح یاب ہوتے یا بلیزرڈز کا لقمہ بنتے دیکھتی تھی، تنہا بستی میں کسی اصل فاتح کی منتظر رہتی جس کے روؤں پر برف کے ذرات جمے ہوں آنکھوں میں فتح مندی کی چمک ہو اور جس سے وہ پوچھ سکتی کہ سنہری چوٹی کو سر کرتے وقت اْس نے رفعتوں کا کیا بھید پایا۔

مگر کچھ بلندیاں گورکھ دھندہ ہوتی ہیں۔ وہ مہم جوئی کے تمنائیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔

نشان منزل تک پہنچنے دیتی ہیں مگر اپنے بھید نہیں کھولتیں۔ یا ان رفعتوں کا سرے سے کوئی راز ہی نہیں ہوتا۔ برف کے چنگل میں صحرا کے جیسے سراب کھلی آنکھوں نظر نہیں آتے مگر بند ہوتی آنکھوں میں خوابوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

نیچے بستی میں کئی مادائیں ان سورماؤں کی منتظر رہیں جو سنہری چوٹی کا راز کھوج کر لے آئیں مگر واپس آنے والے سبھی ایک گہری چپ لیے لوٹتے رہے اور ان میں سے کئی کوہ پیما اگلے موسم بہار میں پھر اسی کھوج میں پلٹ آتے۔ زمل کی عمر سے کئی برس گھٹتے رہے ہمالیائی پھول جو ہر موسمِ بہار میں پھر سے لہلا اٹھتا، کسی سورما کا منتظر ہی رہا۔ بستی کے بوڑھے ہر سرما کی آمد پر اْسی طرح گلیشئیر کی کاشت کرتے، اپنے دریاؤں چوٹیوں اور برفانی تودوں کی طویل عمر کی مناجات کرتے اور مارخوروں کی نسل بچانے کو جتن کرتے نظر آتے۔ زمل نے سنا تھا اعلیٰ نسل کے فقط چند منہ زور نر ہی باقی بچے ہیں کہ ڈوئل Duel میں ہر مخالف کے سینے پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ جو پر تمکنت اور ازلی دلیری سے ماداؤں کے دل کی دھڑکنوں میں بسیرا کرتے ہیں۔

ایک دن کوہ پیماؤں کے بھیس میں شکاریوں کی بڑی ٹولیاں بستی میں آن موجود ہوئیں۔ انکی آمد کی اطلاع اور مقصد کو خفیہ رکھا گیا تھا۔

کئی دن تک بند کمروں میں اور سرگوشیوں میں شکار کی تدبیریں کھوجی جاتی رہیں۔ بالآخر انہیں بستی کے سب سے منہ زور نر زونو کے شکار کا پروانہ مل گیا۔ بدلے میں تازہ چَھپے کرنسی نوٹوں کی ہزاروں گڈیاں تھیں۔

کہنے والوں نے کہا اس رقم سے ماداؤں کو چارہ اور تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ان کی افزائش نسل کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔ لوگوں میں آگاہی پھیلانے کو وسیع پیمانے پر مہم چلانے کے لیے ادارے کے اخراجات پورے ہوں گے اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔

دور مار رائفلوں اور بندوقوں سے مسلح شکاری ٹولیوں نے کئی جگہ گھات لگا رکھی تھی۔ زمل کو بستی کی ہوا میں خوف کی مہک گھلی محسوس ہو رہی تھی۔

ماداؤں نے کمسن میمنوں کے ساتھ چارے پر منہ مارنے کی بجائے غاروں میں دبک جانے میں عافیت سمجھی۔

زونو کے کْھروں کی رگڑ سے پتھروں پر چنگاریاں نکل رہی تھی۔ وہ اپنے پہاڑ کے کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف چوکڑیاں بھرتا ان نر زادوں کو بھگانے کی سعی میں تھا جن کی نالیاں نیلے شعلے اگل رہی تھیں۔

دفعتاً زونو اس غارکے سامنے سے جن میں قدیم داستانوں کے مطابق آفاقیت کے بھید چھپے تھے لڑھکتا ہوا گھاٹی میں آن گرا۔

شکاری فتح کے گیت گاتے اس کے مجروح جسم کی تلاش میں گھاٹیوں میں اترنے لگے۔ پہاڑوں پر شام اتر رہی تھی جفتی ہونے کو آمادہ اسکی مادہ نے کرلاتی ہوئی آواز نکالی جو وادی میں دور تک گونجتی رہی۔

اسی سہ پہر چوٹی کی جانب سے برف پھسلنے لگی۔ لینڈ سلائیڈ اور برفانی طوفان کی زد میں آ کر مہم جوؤں کی بڑی ٹولی ایک بار پھر اپنے قدم اکھاڑ بیٹھی۔ شدید برفانی طوفان کی وجہ سے انکی تلاش ممکن نہ تھی اس لیے کوہ پیماؤں کے لا پتہ ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔

بستی میں شام اتر آئی۔ جھٹپٹے کے وقت بادلوں جیسی نرم برف میں دھیرے دھیرے کوئی سایہ گھاٹی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دور سے دیکھنے والے سیاح سہم گئے۔ وہ زمل تھی جس نے دونوں ہاتھوں سے نایاب ہمالیائی گل لالہ تھام رکھا تھا۔ ایک لحضہ کے لیے اس نے سنہری چوٹی کی طرف غور سے دیکھا، ایک بڑا بھید اس پر آشکار ہو رہا تھا۔ پھر اس نے گہری خاموشی سے زونو کو دیکھا اور وہ ہمالیائی پھول اس پر نچھاور کر دیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*