قید تنہائی

میں اک ساعت نم گزیدہ کی کھونٹی پہ ٹانگی گئی ہوں

خرابے کی صورت مرے آنکھ کے

منعکس آئینوں میں گھری

یک بہ یک بے تکاں رقص کرنے لگی ہے

سوالی کتابیں، جوابی نگا ہیں

مرے کتب خانے کے چپ کے دہانوں

میں پاٹی گئی ہیں

مرے ہم سبق. نطق تو بول دے کہ خموشی کی کثرت سے وحدت خفا ہے. ابھی کل تلک صحبت عمرنے میری تعبیر کے چار وں کونے بھگوئے ہوئے تھے. مگر آج تو یوگ سے سارا سوکھا پڑا ہے نحوست کی باندی،صعوبت کی گٹھڑی اٹھائے مرے وقت کی پشت کو دہرا کرنے لگی ہے

میں باسی بھبھکتی ہوئی شام کے خونی زہر اب سے جام دل کتنے دن تک بھروں گی میں اس قید تنہائی میں اور کتناجیوں گی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*