کہانی ایک سفر کی

“میں تم لوگوں سے الگ ہورہی ہوں ” اس نے
کہا۔ اور وہیں ٹھہر گئی جہاں وہ لوگ پہنچے تھے۔ ان میں دو عورتیں تھیں اور دو مرد۔ رْک جانے والی عورت “ب” نے کہا “مجھے میرا تجربہ بتارہا ہے کہ ہم غلط سمت میں چل رہے ہیں۔ اس سفر کا حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ اس طرح بھٹکتے رہنے سے بہتر ہے کہ ایک مرتبہ اس نقشے پر نظر ڈال لیں جو ہمارے بزرگوں نے بنائے تھے۔ صحیح سمت کی نشاندہی اسی سے ہوجائے گی اور ہمیں اپنے قدموں کو بھی تیز کرنا ہوگا کہ ہم نے کافی وقت بھٹکنے میں گزار دیا ہے۔ وہ نقشہ بڑی حد تک میرے ذہن میں محفوظ ہے تم لوگ چاہو تو میں اسے کاغذ پر کھینچ دوں۔”

“تمہارے ذہن میں محفوظ ہے” “ج” طنزیہ مسکرایا۔ اور “الف” کی طرف دیکھا۔ ذہن میں تو میرے بھی کئی نقشے ہیں مگر راستہ جو سامنے نظر آرہا ہے وہ زیادہ واضح ہے اور وہ بزرگ۔۔؟ وہ تو اپنا سفر تمام کرگئے۔اب ہمیں دیکھنا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں ٹھوکر کھائی۔ یہ “ب””اگر ہمیں اسی سمت لے جارہی ہے جو پیچھے رہ گئی ہے تو بہتر ہے کہ ہم اسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں تک پہنچے ہیں۔”

“الف” نے “ج” کی باتوں سے جزوی اتفاق کیا۔ اس کا خیال تھا کہ جو راہ بھی نظر آئے اس پر چلتے رہنا چاہئے بیٹھ جانا ٹھیک نہ ہوگا۔ سمت کی نشاندہی بھی ابھی ہمیں خود کرنی ہے۔ اْس نے “د” سے تائید چاہی۔

“د” عورت ہے اس کی دانش درست نشاندہی کردے گی۔ “ب”نے اس توقع کے ساتھ “د” کی طرف دیکھا مگر وہ خاموش تھی۔ایسی خاموشی جسے باآسانی تائید سمجھا جائے۔ “ب” کو اس کی خاموشی نے مضطرب کردیا یہ جانتی ہے کہ “الف” اور”ج” غلط سمت میں ہیں۔ پھر یہ کیوں نہیں بولتی “ب”نے سوچا اور “د” کو یہ کہتے ہوئے سنا “میں آپ کے ساتھ ہوں سمت کا تعین آپ خود کرلیں “۔”ب” کی حیرت اب خوف میں ڈھل گئی اس نے ان تینوں سے علیحدگی کو ہی مناسب جانا اور کہہ دیا کہ وہ ان کے ہمراہ نہیں چل سکتی۔

“الف” نے “ج” اور “د” کی طرف دیکھا “ج” کے ہونٹوں پر وہی طنزیہ مسکراہٹ تھی اور “د” نظریں چرا رہی تھی۔”ب” نے ان تینوں کو خدا حافظ کہا اور تیز قدموں سے ان سے دور ہوگئی۔ “ب” نے تنہائی میں ہی عافیت جانی اور کچھ عرصہ سوچ بچار کے لیے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ سفر کا دوبارہ آغاز تو کبھی بھی کیاجاسکتا ہے۔ بھٹکتے ہوئے منزل سے دور ہوجانے سے بہتر تو توشہ نشینی ہی ہے اْس نے اپنے آپ سے کہا۔اْن لوگوں سے جدا ہونے سے پہلے وہ “الف” کو غلط سمت میں بڑھ کر وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہتی تھی۔مگر “ج” اس کی بات کاٹ دیتا اور “د” بھی “ج” کی تائید میں خاموش ہوجاتی۔ “ب” نے اپنی گوشی نشینی کے دوران سوچ بچار میں کچھ وقت گزارا۔ ایک سوال بار بار اس کے ذہن میں اٹھتا تو کیا ہمارے بعد والے بھی بھٹکتے رہیں گے۔ جس راستے پر یہ تینوں جارہے ہیں وہ یقینا منزل کا نہیں۔ میرا رْک جانا پیچھے آنے والوں کیلئے غلط تقلید کی وجہ نہ بن جائے۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ سوچتی رہی اور کئی دن گزر گئے۔ ایک دن اْس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ کئی نوجوان کھڑے تھے۔ آپ یہاں گوشے میں بیٹھی ہیں ہم آپ کو تلاش کررہے تھے۔

تلاش مگر کیوں؟ “ب” نے سوال کیا۔

“گزشتہ برس جب آپ ہمارے درمیان تھیں ہم نے آپ سے جوسیکھا تھا وہ اب تک ہمارے کام آرہا ہے مگر اب کچھ اور سوالات ہمارے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں اور جواب دینے والا کوئی نہیں۔براہ کرم ہماری رہنمائی کیجئے۔ ہمیں علم کا دروازہ بند نظر آرہا ہے اور یہاں سے راستے بھی معدوم ہوگئے ہیں۔ ہم کب تک وہاں ٹھہرے رہیں جہاں صرف لاحاصلی ہے”۔

“ب” نے بہت عرصے سے گفتگو نہیں کی تھی جس خاموشی کی اْس نے ٹھانی ہوئی تھی اب اسے توڑنے محال محسوس ہورہا تھا۔ نوجوانوں میں اضطراب تھا اْن کی حالت ویسی ہی تھی جس میں وہ اپنے تینوں ساتھیوں سے جدا ہوئی تھی۔

تو کیا ایک اور سفر کے لئے سازگار وقت آگیا ہے۔ میں سمت کی نشاندہی کردوں تو یہ نوجوان منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اْس نے نوجوانوں سے کہا وہ چند روز بعد آئیں میں ایک نقشہ بنا دوں گی جو سفر کے مرحلوں کی نشاندہی کرے گا۔ قدم کی رفتار کا تعین بھی کردوں گی تاکہ آہستہ آہستہ یا تیز روی میں ساتھیوں سے بچھڑ نہ جاؤ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*