پو

میں گروی رکھی گئی آنکھوں میں

بسا خواب ہوں

لا محدود سمندر میں تیرتے

جزیروں کا

جہاں مہاجر پرندے گھڑی بھر

بسیرا کرتے ہیں

نیلگوں پانیوں کا

ساحلوں کے کنارے

چمکتی رہت کا

وہ خواب

جو بہہ نکلتا ہے

نمکین قطرے کی صورت

میں وہ آزاد روح ہوں

جو غلام جسموں کے اندر

تڑپتی ہے

بھٹکتی پھرتی ہے

درد سے پھٹتے سر کی

درز سے

نکلنے کو بے تاب ہوتی ہے

میں وہ مہمل صحیفہ ہوں

تہ در تہ لپٹا ہوا

جس کے معنی کی سلطنت

آشکار نہیں ہوتی

مگر کتاب پو کی مانند

روز پھٹتی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*