دیواروں کے پیچھے

پھرکل رات
مری آنکھیں بے خواب رہیں
کمرے کی ساکت دیواروں کے اس پار
وہی گرجتا
وحشی لہجہ
گھٹی گھٹی سسکی کو
کتنی بے رحمی سے نوچ رہا تھا
ڈوبتی رات کے سنا ٹے میں
اس کی مد د کو کسے پکاروں
کون آئے گا ؟
اکثرمیری بے چینی نے فون ملایا
اورقانون کے رکھوالوں نے
اک عورت کے چپکے چپکے یوں مرنے کو
د یواروں کے اندرکا قانون بتا کے
خود کو عا جز بتلا یا تھا ۔
اکثرایسا ہی ہوتا تھا
اکثربھورسمے تک وہ یونہی روتی تھی
لیکن آج اچانک کیوں خاموش ہوئ ْ؟
خوف کی ٹھنڈک َ ۔ ۔ ۔ ۔
میری روح تلک دھنس آئ
صبح سویرے میں نے دیکھا
سامنے اس کے دروازے کے
کچھ قانون کے رکھوالے
اک ایمبولنس کے پاس کھڑے تھے
اب ان قا تل ہاتھوں میں زنجیرپڑی تھی
میت ایمبولنس میں دھری تھی ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*