ہم اپنی اپنی خصلتوں پر جی رہے ہیں

تم خوف ایجاد کرتے ہو

پھر پناہ گاہیں تعمیر کرتے ہو

تم موت بانٹتے ہو

پھر کفن بیچتے ہو

زمین کی پر تیں ادھیڑ کے

بارودی سرنگیں بچھا دیں

شہر تاراج کرکے

بی بیوں کی بیوگی

اور بچوں کی یتیمی

کے لئے طیاروں سے ہمدردی کے

منا ظر کمبل اور کھانے کے ڈبوں

کی صورت دنیا کے سا منے تصویر کردئے۔

ہم سب کچھ دیکھتے ہیں

سب جانتے ہیں

مگر سوسال سے

تعویزوں اور گنڈوں کو

اپنا ہتھیار بنائے

ہاتھوں میں کشکول اٹھائے

تمہیں بد دعائیں دیتے ہوئے

اپنے اندر قید ہیں۔

ہم فرقہ واریت کا علم لئے

اپنے اپنے کی بانٹ میں

گتھم گتھا ہیں

ہمیں اپنی ذہنی اور فکری غربت

پر ناز ہے ۔

تم چال پر چال چلتے رہو

ہم مات پر مات کھاتے رہیں گے

ہم اپنی اپنی خصلتوں پر جی رہے ہیں

اس وعدے کے ساتھ

کہ جب تک خود کو

نیست و نابود نہ کردیں

اپنی قسم پر قائم رہیں گے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*