ایک نثری نظم

کیسی لگے گی یہ دُنیا
کرونا کے بعد ،
یہ عقدہ کون کھولے گا ؟

پھیلتی جارہی ہے وبا کی دہشت
صدی کی سب سے بڑی آفت نے
اچانک ہی ہمیں آلیا

قدموں تلے زمین سرکتی جارہی ہے
ہوائیں مغرب سے مشرق کی طرف چل پڑیں

دیکھو! عظیم قومیں ،کس طرح لفظوں کی جنگ میں
ایک دوسرے کو شکست دے رہی ہیں!!

طاقت ور ملکوں نے سندیسہ بھیج دیا
اُن کے رفقا اپنا اپنا آخری انتخاب کرلیں
تیسری دُنیا کی مخلوق
اک نئے سیارے پر منتقلی
کی تیاری میں مصروف ہے

بینک رَپسی (bankruptcy) کی تازہ فائلیں تیار ہورہی ہیں
روحانی اُستادوں کا کاروبار چمک اُٹھا ہے

مغرب کی ہر شے کا جادو بکھر تا جارہا ہے
اب برینڈڈ اشیا ،
شیلفوں پر گاہکوں کا انتظار کریں گی

نسل پرستی کے خلاف لگنے والے نعرے ،
دلوں کو لُبھارہے ہیں
ایک غیر مسلّح سیاہ فام کی ڈھلکی ہوئی گردن
تصویر کی صورت ،چوک پر آویزاں ہے
شاید یہی تصویر وہ تنکہ ثابت ہو
جو معاشی اجارہ داری کے اونٹ کی کمر توڑے

میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے
نئی صبح کے سورج سے ہم کلام ہوں
سوچ رہی ہوں
کسی دانش ور نے کہا تھا
جس لمحے طاقتوں کا غیر متوقع ملاپ ہورہا ہو
وہی
انسانی تاریخ کے
رُخ بدل دینے کا
لمحہ ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*