بیس سال بعد

پولیس افسر اپنی دھن میں مگن متاثر کن انداز میں گلی میں مڑا۔ یہ تاثر کسی دکھاوے کا مظہر نہیں تھا بلکہ اسکی مستقل عادت کا حصہ تھا۔ کیونکہ دیکھنے والے لوگ اکا دکا ہی تھے۔ رات کے بمشکل دس بجے کا وقت تھا مگر سرد ہوا کے جھونکوں سے جن میں بارش کی بھی آمیزش تھی ، گلیاں سنسان تھیں۔
اپنی چھڑی کو ماہرانہ اور پیچیدہ انداز میں گھماتے ہوئے وہ دروازوں کو چیک کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ پرسکون گزرگاہ پر ا دھر اُدھر اپنی چوکس نگاہیں دوڑاتا ہوا افسر اپنے قوی جسم اور تنی ہوئ چال کے ساتھ امن کے محافظ کی ایک خوبصورت تصویر پیش کر رہا تھا۔
یہ وہ علاقہ تھا جو گھنٹوں پہلے ہی بند ہو گیا تھا۔ البتہ کہیں کہیں رات بھر کھلے رہنے والے ڈھابوں اور سگار کی دکانوں کی روشنیاں دکھائ دے سکتی تھیں۔ لیکن زیادہ تر دکانیں کاروباری طبقہ سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ گھنٹوں پہلے بند کر کے جا چکے تھے۔
ایک خاص بلاک کے وسط میں پولیس افسر نے اچانک اپنی رفتار دھیمی کر لی۔ ایک تاریک ہارڈ ویئر کی دکان کے دروازے پر ایک شخص منہ میں بنا سلگائے سگار دبائے جھکا ہوا تھا۔ پولیس افسر اس کے پاس چلا آیا۔ وہ شخص تیزی سے بولا،
‘سب ٹھیک ہے آفیسر’ اس نے یقین دہانی کرائ۔ ‘ میں اپنے ایک دوست کا انتظار کر رہا ہوں۔ یہ بیس سال پہلے کا ایک معاہدہ ہے۔ آپکو یہ تھوڑا مضحکہ خیز لگے گا۔ کیا نہیں لگتا؟ بہر حال میں اسکی وضاحت کرونگا اگر آپکو یقینی بنانا ہے کہ یہ سب درست ہے۔ طویل عرصہ پہلے وھاں ایک ریستوران ہوا کرتا تھا جہاں پر اب یہ سٹور کھڑا ہے۔ برادی کا ‘بگ جو’ ریستوران۔
‘ پانچ سال پہلے تک تھا پھر یہ گرا دیا گیا۔’ پولیس افسر نے بتایا۔ دروازے میں بیٹھے آدمی نے دیا سلائ روشن کی اور اپنے سگار کو جلا لیا۔روشنی میں ایک زرد چوڑے جبڑوں اور گہری آنکھوں والا چہرہ دکھائ دیا۔ اسکی دائیں آنکھ کے قریب ایک سفید دھبہ تھا۔ اسکی نکٹائ میں ایک بڑا سا ہیرا غیر موزوں انداز میں جڑا تھا۔
‘بیس سال پہلے آج ہی کی رات میں’ آدمی نے کہا ‘ میں نے دنیا میں اپنے سب سے بہترین دوست جمی ویلز کے ساتھ برادی کے ‘بگ جو ‘ ریستوران میں رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہ اور میں یہیں نیو یارک میں اکٹھے پروان چڑھے تھے بالکل دو بھائیوں کی طرح۔ میں اٹھارہ سال کا تھا اور جمی بیس سال کا۔ اگلی صبح مجھے اپنی قسمت آزمائ کے لئے مغرب کی جانب روانہ ہونا تھا۔ آپ جمی کو نیو یارک سے باہر نکال کر نہیں لے جا سکتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا میں رہنے کیلئے بس یہی واحد جگہ ہے۔ بہر حال اس رات ہم متفق ہو گئے کہ اس دن اور تاریخ کے ٹھیک بیس سال بعد ہم دوبارہ یہیں ملیں گے۔ حالات چاہے جو بھی ہوں اور ہمارے درمیان کتنے ہی فاصلے کیوں نہ حائل ہوں۔ ان بیس سالوں میں تقدیر نے ہماری قسمتوں کا جو بھی رخ متعین کیا، ہم بن گئے۔’
‘یہ بہت دلچسپ لگتا ہے۔’ آفیسر نے کہا۔’ میرا خیال ہے ملاقات کے درمیان ایک طویل مدت گزر گئ ہے۔ جب سے آپ جدا ہوئے ہیں کیا آپ نے اپنے دوست سے کوئ رابطہ نہیں رکھا؟’ ‘ہاں کچھ عرصہ ہمارے درمیان خط و کتابت رہی’ دوسرا شخص بولا۔ ‘ مگر ایک دو سال کے بعد ہم نے ایک دوسرے کا پتا کھو دیا۔ مغرب بہت وسیع ہے اور میں (اتنا مصروف رہا کہ ) بعجلت ہی ہر جگہ گھوما پھرا ہوں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر جمی زندہ ہے تو وہ مجھے یہاں ضرور ملے گا۔ وہ اتنا ہی سچا ہے جتنا دنیا کا کوئ بھی سچا شخص ہوتا ہے ۔ میں آج رات اس سے ملنے کے لئے ہزاروں میل دور سے آیا ہوں۔ میں بہت خوش ہوں گا آگر میرا دوست بھی مجھ سے ملنے آ جاتا ہے۔’
منتظر شخص نے ایک نفیس گھڑی نکالی جس کی چین پر چھوٹے چھوٹے ہیرے لگے ہوئے تھے۔’ دس بجنے میں تین منٹ باقی ہیں۔’ وہ بولا ‘ جب ہم نے ریستوران کے دروازے پر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا تھا تو اس رات ٹھیک دس بجے کا وقت تھا۔’
‘ مغرب میں تم کامیاب و کامران ٹھرے کہ نہیں؟’ افسر بے پوچھا۔ ‘ یقیناً میں کامیاب رہا۔ مجھے امید ہے کہ نصف حد تک جمی بھی کامیاب رہا ہو گا۔ وہ ایک سست رو انسان تھا۔ مجھے اپنی کامیابی کی جنگ لڑنی پڑی ہے۔ نیو یارک میں تبدیلی کے مواقع بہت کم میسر ہیں۔ مغرب میں آپ سیکھتے ہیں کہ کامیابی کے حصول کی جنگ آپکو کس طرح لڑنی ہے۔’
پولیس افسر نے اپنی چھڑی کو گھماتے ہوئے ایک دو قدم اٹھائے۔ ‘ اب مجھے اپنے راستے پر چلنا ہو گا۔’ اس نے کہا۔ ‘ مجھے ا مید ہے آپکا دوست بالکل ٹھیک پہنچ جائے گا۔ اگر وہ دس بجے تک نہ آیا تو کیا آپ چلے جائیں گے؟’ ‘میں نہیں جاؤں گا’ دوسرا شخص بولا۔ ‘میں کم از کم آدھے گھنٹے تک اس کا انتظار کروں گا۔ اگر جمی روئے زمین پر زندہ ہے تو وہ اس وقت تک ضرور یہاں ہو گا۔ شب بخیر آفیسر!’
‘شب بخیر’ افسر نے کہا اور اسی دھن میں دروازوں کو چیک کرتا ہوا آگے کی جانب بڑھ گیا۔ موسم میں خنکی بڑھ گئی۔ مینہ برسنے لگا اور ہوا کے جھکڑ تیز ہو گئے۔ اس گلی میں چلنے والے لوگ اپنے کوٹوں کے کالر کھڑے کئےاور ہاتھ جیبوں میں ڈالے سرعت سے خود کو گرم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ دکان کے دروازے پر وہ شخص کھڑا تھا جو ہزاروں میل کی دوری سے چل کر وعدے کی تکمیل کے لئے اپنے دوست سے ملنے آیا تھا۔۔۔ایسی ملاقات جو یقینی بھی نہیں تھی۔ مگر وہ پھر بھی سگار کا دھواں اڑاتے ہوئے انتظار کر رہا تھا۔
تقریباً بیس منٹ اس نے انتظار کیا۔ تب ایک طویل قامت شخص لمبے کوٹ میں ملبوس تیزی سے چلتا ہوا گلی کی دوسری جانب سے نمودار ہوا۔ وہ سیدھا منتظر شخص کی جانب بڑھا۔’ کیا یہ تم ہو باب؟’ اس نے شکیہ انداز میں پوچھا۔ ‘کیا یہ تم ہو جمی ویلز؟’ دروازے میں کھڑا شخص چلایا۔ "میرا دل خوشی سے لبریز ہے”۔ نئے آنے والے شخص نے دوسرے شخص کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ ‘یہ یقیناً باب ہی ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اگر تم زندہ ہو تو مجھے ضرور ملو گے”۔’ بیس سال ایک طویل عرصہ ہے۔ پرانا ریستوران ختم ہو گیاباب۔ میری خواہش ہے کہ وہ یہاں ہوتا تاکہ ہم آج پھر اس میں ایک اور ڈنر کر سکتے۔ کیا مغرب تمہارے لئے سود مند رہا۔؟”
‘اس نے مجھے وہ سب کچھ دیا جو میں نے چاھا ۔تم بدل گئے ہو جمی۔ میرا نہیں خیال تھا کہ تم اتنے لمبے ہو جاؤ گے۔’ ‘اوہ! بیس سال کے بعد میرا قد کچھ انچ اور بڑھ گیا تھا۔’ ‘اور سناؤ جمی تم نیو یارک میں ٹھیک طرح سے ہو نا؟’ ‘ہاں میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور ایک اچھے محکمے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں۔ آؤ باب ہم ایک اچھی جگہ پر چلتے ہیں اور گزرے وقتوں کی اچھی یادوں اور باتوں کو دہراتے ہیں۔’
دونوں آدمی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلی کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ مغرب سے آنیوالا شخص اپنی کہانی سنانا شروع ہو گیا۔ دوسرا اپنے کوٹ کے کالرکانوں تک کھڑے کئے دلچسپی سے سن رہا تھا۔ گلی کی نکڑ پر ایک ڈرگ سٹور برقی قمقموں سے روشن تھا۔ جب وہ اس کے قریب آئے تو دونوں نے ایک دوسرے کے چہروں کی جانب دیکھا۔
مغرب سے آنیوالا شخص اچانک رک گیا اور کھینچ کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ ‘تم جمی ویلز نہیں ہو۔’ وہ گویا ہوا ‘بیس سال طویل عرصہ ہے مگر اتنا بھی طویل نہیں کہ کسی شخص کی ناک کی ہئیت بدل دے۔’
طویل قامت شخص بولا، ‘وقت بعض اوقات ایک اچھے آدمی کو برا بنا دیتا ہے۔ تم دس منٹ تک زیرِ حراست ہو گے. باب۔ شکاگو پولیس کا خیال تھا کہ تم نیو یارک آ سکتے ہو۔ انھوں نے ہمیں تمہاری تلاش کے لئے کہا تھا۔ کیا تم خامشی سے میرے ساتھ آ رہے ہو؟ عقلمندی اسی میں ہے۔ لیکن ٹھرو سٹیشن پر جانے سے پہلے مجھے تمھیں ایک رقعہ دینے کے لئے کہا گیا تھا۔ تم اسے یہاں کھڑکی میں پڑھ سکتے ہو۔
باب نے کاغذ کا چھوٹا سا پرزہ کھولا اور پڑھنے لگا۔ اس کے ہاتھ مستحکم تھے مگر تحریر کے اختتام تک لرزنے لگے
‘باب میں اس وقت اس مقررہ جگہ پر موجود تھا۔ جب تم نے سگار سلگانے کے لئے دیا سلائ جلائ تو میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا جو شکاگو پولیس کو مطلوب تھا۔ مجھ میں تمھیں گرفتار کرنے کا حوصلہ نہیں تھا سو میں چلا آیا اور ایک دوسرے اہلکار کو یہ فریضہ سونپ کر بھیج دیا۔’
‘ جمی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*