جدید سندھی ادب کا دیومالائی کردار "سوجھرو” کا مدیر "تاج بلوچ”

صحتمند چہرہ جسم بھرا بھرا، سیاہ چمکتی ہوئی آنکھیں، پیٹ ذرا سا آگے کو نکلا ہوا، اعضا میں پھرتی اور دید و دل کی تمام رعنائیوں سے شخصی اور ادبی طور پر مالا مال ایک جفاکش مصنف، بیباک نقاد، بہترین مترجم، غزل و نظم کا عمدہ شاعر، ایڈیٹر، دانشور، مقرر ، ادبی تجزیہ نگار، تعمیری تنقید نگار ، بین الاقوامی ادب کا رسیا اور دل میں ہمیشہ کام کرنے کی لگن اور امید زندہ رکھنے والا تاج محمد بلوچ المعروف تاج بلوچ قومی نسبت سے جتوئی قبیلے کے پاڑے بلو سے تعلق رکھتا تھا جس کا جنم ضلع سکھر کے ایک تعلقہ پنوعاقل کے چھوٹے سے دیہاتی گائوں محمد مراد خان بلو (کوٹ بلاں) میں 25 مئی 1942ع میں ہوا تھا۔ اس کا والد نورمحمد اپنے علاقے اچھا خاصا زمیندار اور اثر و رسوخ رکھنے والا فرد تھا جس نے اپنے بیٹے کو لاڈلوں کی طرح پالا پوسا تھا۔ بچپن میں اس کے تمام انگل پورے کئے یہاں تک کہ اسے اسکول جانے کیلئے بھی ایک شاندار گھوڑا لے کر دیا تھا اور ایسی امیرداری اور عیاشی کیلئے اس دور کے ر بڑے بڑے امرا و رئوسا بھی ترستے رہتے تھے۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل، سماجی سہولتکاری، شاہانہ زندگی گذارتے ہوئے یہ خوبرو نوجوان خوشحال ماحول میں پلا بڑھا اور ساری عمر ایک شاداب، پر بہااور خوبصورت ر زندگی گذاری۔
دورِ الہڑ جوانی میں فلموں کا اتنا رسیا ہوا کہ "شوقِ گل بوسی” میں اسے اداکار بننے کا مصمم ارادہ کیا اور کئی بار اکثر گھر والوں سے پیسے بٹورکر لاہور کی فلم نگری میں قسمت آزمانے چلا جاتا تھا مگر ہر بار "بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے” کے مصداق ناکام ہی لوٹنا پڑتا تھا۔ مسلسل نامرادیوں کے طفیل جب اداکاری کا بھوت سر سے اترا تو کراچی آکر بس گیا جہاں وقت کے ساتھہ ادبی، سماجی اور سیاسی محفلوں کی شرکت کرتے کرتے ان کی جان بنتا بناتا تاج بلوچ اپنے عہد کا بہت بڑا رومانوي ۽ ترقي پسند شاعر بن گیا جہاں وہ اپنی قلمی صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری کاموں بروئے کار لاکر زندگی کے گیسوئوں کو اور بھی تابدار بناتا چلا گیا۔
اس کے بعد تاج بلوچ تھا اور کراچی کے سماجی، سیاسی اور ادبی حلقوں کی گہماگہمیاں جہاں تھوڑے عرصے بعد ہی تاج بلوچ کی شمولیت ان محفلوں میں جان ڈال دیا کرتی تھی۔ حسنِ آوارگی کا اعجاز تو تھاہی مگر ادبی ذوقِ سلیم،کمال پر ہونے کے سبب”جہاں بھی گیا داستان چھوڑآیا”۔ وقت کے ساتھہ اپنا حلقہ احباب بڑہاتے ہوئے تاجج بلوچ بیشمار ادبی سوسائٹیوں اور انجمنوں کا روحِ رواں بنتا چلا گیا۔ وہ نہ صرف سندھی لٹرری سوسائٹی کا بانی تھا بلکہ ایسوسیئیشن آف پروگیسو رائیٹرز کا فعال کارکن اور نجمن ترقی پسند ادیب کا فعال کردار،اور مٹتحرک کردار رہا۔ مرحوم ایاز قادری نے اسے سندھی ادبی سنگت میں متعارف کروایا مگر بعد ازاں اپنی محنت اور لگن سے سندھی ادبی سنگت کا سیکریٹری جنرل بھی بنا اور اس شاندار ادبی پلیٹ فارم کے ساتھہ ہر مشکل گھڑی میں نہ صرف دمے درمے ساتھہ رہا بلکہ اسے سندھہ کے کونے کونے میں پہنچاکر بہتر اور موثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاج بلوچ نے ریڈیو پر کمپیئرنگ سے شروعات کی اور دو دہائیوں سے زیادہ ریڈیو پاکستان اور ٹیلیویزن پر نشر اشاعت کے شعبے سے وابستہ رہا۔ ملک کے فائنانس کھاتے میں ٹریزری آفیسر رکے طور پر سرکاری نوکری بھی کرتے رہے مگر آدرش و اصولوں کے چکر میں وقت سے پہلے سرکاری کھاتہ بند کرنا پڑا۔
سالہا سال تک سندھی ادب کے عروج و زوال کا رازداں رہنے والے اور سندھی زبان میں جدید ادبی تنقید کے منفرد زاویے متعارف کروانے والے اس خوبصورت انسان سے میری پہلی ملاقات آج سے سولہ سترہ سال پہلے اس کے گھر نمبر 177 واقع گل ہائوسز نزد سفورا چورنگی میں ہوئی تھی جو سالہاسال تک کراچی میں سندھی ادبا و شعرا کیلئے ادبی رونقوں،محفلوں اور محبتوں کا گڑھہ بنا خدمت سرانجام دیتا رہا جہاں آئے دن نئے و پرانے ادبا، شعرا، کہانیکاروں اور افسانہ نگاروں کی کچہریاں منعقد ہواکرتی تھیں جہاں تاج بلوچ بذاتِ خود سب کی شخصی اور ادبی خدمتیں سرانجام دیا کرتا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ”مشقِ سخن سے اذہان کھلتے ہیں اور مذاج بدلتے ہیں”۔ اس پہلی ملاقات میں میرے محسن دوست فداحسین ملانو بھی ساتھہ تھے بلکہ میں مانتا ہوں کہ اس ملاقات کا سہرہ فدا کے سر ہی تھا کیوں کہ اس سے پہلے میں نہ تاج بلوچ کو جانتا تھا اور نہ ہی ادبی ریل گاڑی کے کسی بھی ڈبے کا مسافر تھا بلکہ آل پاکستان ٹیکسٹائیل ملز ایسوسیئیشن میں ایگزیکیوٹوآفیسر ایکسپورٹ کے طور پر کام کرتا تھا۔
تاج بلوچ بھی کسی حد تک میری طرح طبعاؑ ڈاڑو اور شکلاؑ دھانسو قسم کا آدمی تھا۔ ادبی گھاگھہ تو تھا ہی اس لئے کچھہ ملاقاتوں کے بعد اس سے میری کافی کیمسٹری جڑگئی اور مجھے جب بھی کراچی جانا ہوتا تھا تو میں اکثر ان کی حاضری دیا کرتا تھا کبھی آءِ آءِ چندریگر روڈ پر رمضانی بیکری کے اوپر سوجھرو میگزین کے دفتر میں یا پھرریگل چوک والی آفیس میں کیوں کہ تاج بلوچ کے تینوں ٹھکانے میرے لئے آسان رہتے تھے کہ گل ہائوسز میں میرے عزیز علی خان بھیو کا گھر ان کے گھر سے دو گلی چھوڑ کر مشرق میں تھا جہاں آتے یا جاتے سمے تاج صاحب کے ہاں حاضری پکی رہتی تھی۔ چندریگرروڈ پر انٹرنیشنل انگریزی جریدے "جیول ٹائیم” اور اردو روزنامہ”امروز” کا دفترتھا جہاں میں ایڈیٹر تھااور کراچی میں رہنے والے آوارہ گرد لکھاری اور صحافی ریگل چوک پر ہی زیادتر تر بسوں سے اترتے پھر صدر میں سستی خریداری کا مزہ لیا کرتے تھے۔
کسی دور میں تاج بلوچ اس خیال کا حامی بھی رہا کہ’ ادب اور سیاست لازم و ملزوم ہیں بلکہ ادب ہی سیاست کی بنیاد ہے کیوں کہ اگر ادب میں سیاست نہ ہو تو وہ ” بے جان ادب ہوگا جو ایک ہی مقام پر ساکت ہوکر رہ جائے گا” اس لئے تاج نے سیاست کو بھی کئی سال تک بوریا بستر بنا رکھا۔ جہاں جہاں سندھہ کے حقوق اور مخلوق کے ساتھہ انصاف کی بات چلی وہاں کمر باندھہ کر دنگل میں اتر جاتا تھا۔ ہر دور میں اس فرہاد کے پاس اس کا ہتھیار "کچھہ کرنے کا جذبہ اور اس کا قلم تھا”۔ محترم جی ایم سید کے ساتھہ ون یونٹ خلاف چلائی گئی ہلچل میں تاج بلوچ پیش پیش رہا مگر کچھہ اسباب کی وجہہ سے بعد ازاں اس نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ قومی تحریک میں ایک قلیل اقلیت اور سرخوں میں ایک بڑی اکثریت مذہبی معاملات کو پیٹھہ دے اپنے نظریوں اور تحریروں میں مذہبی معاملات سے نابری کی پرچار کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتی ہے مگر تاج بلوچ اس قسم کے معاملات مٰیں الگ موقف رکھتا تھا کہ” انسان کے سیاسی نظریات اپنی جگہ اور مذہبی عقیدہ اپنی جگہ”۔ کچھہ دن پہلے ہی اس نے فیس بک پر اپنی ٹائیم لائیں پر لکھا تھا کہ "چاروں طرف کرونا کو خدا تعالی کا قہر مانا جارہا ہے مگر میرا خدا اتنا جلاداور سفاک کہاں ہے کہ اپنی عظیم مخلوق کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کرے گا۔ یہ ہماری ہی کوئی کوتاہی ہوگی کیوں کہ خدا تعالیٰ تو درگزر کرنے والا ہے”۔
تاج بلوچ سے متعلق یہ ایک دلچسپ المیہ مانا جاسکتا ہے کہ ادب میں اس نے جتنے پرستاراور دوست بنانے اس سے کہیں زیادہ مخالفتیں بھی اس کے ادبی اور شخصی ورثے میں آئے۔ انسان کی شخصیت میں خامیاں ہونا ممکنات میں سے نہیں ہیں مگر ایک ادیب کی حیثیت سے اسے ایماندار ہونا چاہیے اور یہی بات تاج بلوچ کی زندگی پر صادق ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اس کی برجستگی، صاف گوئی اور تلخ کلامیاں سمجھنے سے قاصر ہواکرتی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اکثر اوقات ان کے لہجے میں پائی جانے والی تلخی اور تندہی امیرانی تربیت کا خاصہ تھی یاسندھہ کی معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی گراوٹ پر دل کڑہنے کی علامات کے سبب تھی مگر آوارگی کی خوگر نگاہوں والے اس عقابی ادیب کا انسانوں کو پرکھنے اور ادب و سماج سے متعلق اپنا ایک الگ پیمانہ ہوا کرتاتھا جس کا اسے حق بھی تھا۔ کسی بات کا لالچ یا خوف اسے تھا نہیں اس لئے بھرتی کی کسی بات، خیال اور سوچ کا خود پر ٹھونسنا اس کے لئے کبھی قابلِ قبول نہیں دیکھا گیا۔
تاج بلوچ کی شخصیت کی ایک خامی یہ بھی تھی کہ وہ علمی اور شخصی بنیاد پر اکثر خار کھاکر تصادم پر اتر آتا تھا مگر جلد ہی اپنی بات پہ خائف ہوکر مصالحت کا راستہ بھی نکال لیا کرتا تھا جس کے نکلنے کی سبیل کبھی کبھی سالہا سال تک نہیں نکلتی تھی”۔ ذاتی زندگی میں اکثر اوقات وہ سطحی سوچ رکھنے والے ادیبوں اور دانشوروں سے گریز کا قائل تھا کیوں کہ "منافق انسانوں کی طرح وہ اپنے ضمیر، اصولوں اور قانونوں کے احترام سے بددیانتی کا قائل نہیں تھا”۔ باوجود اس کے کہ وہ تنقید کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھتا تھا مگر اپنے ہی دانشور طبقوں کا ادب سے متعلق غیر منطقی نقطئہ نظر اس سے برداشت نہیں ہوتا تھاکہ "ناگوار باتوں پردل کا کڑہتا انسانی فطرت رہی ہے”۔
تاج بلوچ کو ضمیر اور دل کی بات پر سوداکسی طور پر قبول نہیں تھا مگر ضروری نہیں تھا کہ "اس کے بنائے ہوئے اصول دوسروں کو بھی اسی طرح قابلِ قبول ہوں”۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس کی نیت میں کھوٹ ڈھونڈنا میرے جیسے انسانوں کیلئے ہمیشہ مشکل رہا کیوں کہ اس نے سندھہ کی دھرتی پر لاشوں کے انبار دیکھہ کر حسن اور دلکشی نے ترانے نہیں گائے بلکہ وہ ہر دور میں اس بات کا قائل رہا کہ "اہلِ قلم کو تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے ہمیشہ مظلوم طبقوں کا ساتھہ دینا چاہیے”۔
کسی بھی سماج کے ذہین لوگ اپنے حالات کی دھڑکن سے واقف رہتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں۔ تاج بلوچ بھی سندھہ کا عقلمند بیٹا تھا جس نے جان لیا تھا کہ "وقت بڑی تیزی سے ہمارے خلاف جارہا ہے اور ہم تاریخی عمل کی لپیٹ میں آچکے ہیں جہاں سلامتی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں، عروسِ آزادی کی چیخین بہت قریب سنائی دے رہی ہیں اور تاریخ میں اپنی قوم کو مرثیہ بن کر محفوظ ہونے سے بچانے کے لئے تاج جیسے لوگوں کے پاس آخری امید ان کا قلم تھا”۔
ہمارے ملک و قوم پر پچھلی صدی سے آج تک عذاب کا عمل جاری ہے۔ ایکدوسرے سے خوفزدہ ہونے کا عذاب، بد اعتمادی اور بے یقینی کا عذاب، جان، مال، آبرو لٹ جانے کاعذاب، اداسی، مایوسی اور دل شکسگتی کا ڈستا ہوا عذاب، انتشار اور خلفشار کا بپھرتا ہوا عذاب، اندیشوں، سراسیمگی اور ناامیدی کا بڑہتا ہوا عذاب، بیروزگاری، بے کسی، بے چارگی اور بے بسی کا رستا ہوا عذاب۔ اور یہ سارے عذاب ہمارے معاشرے کا سکون، امن اور خوشیاں لوٹ چکےہیں جس سے ہر سمت خون آلود اور خون آشام فضا طاری ہے۔ اور یہ سارے عذاب ہمارے اپنے اعمالوں کا نتیجہ ہیں تعلیم سے دوری، اخلاقیات سے بیگانگی، نفس کی حکمرانی، نیکی پر بدی کو فروغ، عصبیتیں، قانون او انصاف کی ناپیدگی دامن میں لیکر اور سلامتی سے گریزان ایک مربوط زندگی اور ایک معین مقصد اور بلند و بالا نصب العین کے بغیر حقیقی معنوں میں ایک قوم کیسے زندہ رہ کر دکھا سکتی ہے۔ ان سارے عذابوں سے وہ اپنے ذوق و قلم کے ساتھہ برسرِ پیکار رہا۔

تنقید
اس کے جانے پر اس کے چاہنے والوں کو اس طرح ملول و اداس دیکھہ کر لگتا ہے کہ اس نے ساری عمر پیار و محبت بانٹی اور اگر وہ کچھہ ادبی و تحقیقی معاملات سخت اور کھردرا تھا تو اس کا سبب مجھے آج سمجھہ میں آتا ہے جب ایسی شاعری اور ادب کی کتابوں پر بڑے بڑے ناموں کے جھوٹے تبصرے دیکھتا ہوں جن کتابوں کی ایک سطر بھی ڈھنگ سے لکھی ہوئی نہیں ہوتی۔ ایسے شاعروں اور ادیبوں کی تاج بلوچ ناجائز تعریف و تعمیر کی تاج اصولوں میں کوئی جگہ نہیں تھی کیوں کہ سندھی ادب، زبان ،تاریخ، شاعری کی اصلوکی فکر علمی و فن کا تحفظ کرنے کا ذمہ اٹھاتے ہوئے اس نے ہمیشہ اکیلے سر سندھی ادب کے پیدل دستوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ایک تعمیرکار کا کردار ادا کیاتھا جس سے ہٹنا یا سرکنا اس کیلئے قابلِ قبول نہیں تھا۔
ادبی تاریخ و تنظیم سازی کا یہ استاد تاج بلوچ ایک وطن دوست انسان اور اعلیٰ پائے کا نقاد تھا جس نے عالمی ادبی و نظریات کے پسمنظر میں تمام سندھی اصنافِ سخن پر مشق صنائی کی۔ ایک طرف وہ پرانے اور گھاگھہ قسم کے ادیبوں کی روایتی تحریروں کوی قلعی اتارنے کا ماہر و مشاق تھا جس کا گلہ اس کے ہم عصر و پیشرو ہمیشہ سے کرتے چلے آتے ہیں وہاں تاج بلوچ کی ایک حسین ترین خوبی تھی کہ وہ نوجوان اور نامعلوم ادبا کی اچھی کتابوں اور تحریروں کی دل کھول کر تعریف بھی کیا کرتا تھا۔ وہ لگی لگائی اور لپٹی لپٹائی کا قائل نہیں تھا اس لئے ہر معیاری تحریر اس کے لئے قابلِ تعریف و ستائش ہواکرتی تھی اس کے بر عکس بھرتی اور بھرمارائی تحریریں کے کمزور پہلوئوں کو واضع کرکے بیخ کنی کرنا اس کا ایمان ہواکرتا تھا چاہے وہ تحریرں حضرتِ وقت ادیبوں کی ہی کیوں نہ ہوں۔ تاج بلوچ بس ادب میں منافقی اور بہروپی کا قائل نہیں تھا اسلئے ادبی اور شخصی طور پر بیشمار ملامتیں اپنے حصے میں سمیٹنے کے باوجود وہ اپنے تمام تنقیدنگاروں سے زندگی بھر ذہنی طور پر شاہوکار، مطئمن اور ہشاش بشاش دیکھا جاتا رہا ۔
تاج بلوچ کی بنیادی پہچان شاعری تھی اور اس نے بارہ سال کی عمر میں تب رنگِ تغزل پہ طبع آزمائی کرنی شروع کردی تھی جب ابھی اس کی عمر کھیلنے کودنے کی تھی۔ عمر کے ساتھہ شاعری میں بالیدگی اور روح کی تمام لوازمات استعمال کرتے ہوئے تاج بلوچ نے ملی نغمے، جنگی ترانے لکھنے کے ساتھہ پاکستان ٹیلی ویزن کیلئے بھی بیشمار گیت لکھے۔ تاج بلوچ کی شاعری میں مزاحمت اور رومانویت کا عنصر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے بلکہ یوں کہاں جائے کہ وہ "ادبی طور پر وہ ایک مزامتکار شاعر تھا اور شخصی طور پر رومانویت پسند شخص”، جس کا سندھی ادب کو نکھارنے اور اوسر دینے والا کردار صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ ” میں اس شاعر کو بھی پرانے اسکول آف تھاٹ کا سمجھتا ہوں جو موجودہ دور کے کسی بھی جدید ادبی محرک کو گفگتو میں شامل نہیں کرتا”۔
میری تاج بلوچ سے کچھہ زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں مگر جتنی تھیں و اس کی شخصیت کو سمجھنے کی لئے کافی تھیں مگر میں انہیں زیادہ تر اس کے رسالے "سوجھرو” کے حوالے سے جانتا اور پہچانتا ہوں کہ اس رسالے کے ذریعے اور حوالے سے اس نے کیا اور کیا کرنا چاہتا تھا۔ اس دور میں سندھہ سے نکلنے والے کچھہ رسالوں جیساکہ پروڑ، سھنی، مھران، روح رھان اور سوجھرو وغیرہ نے سندھی ادیبوں کی نوجوان نسل میں ادب، اخلاق اور تاریخ کی پود لگانے میں اہم کردار کیا۔ وقت کے ساتھہ دوسرے تمام اہم رسالے بند ہوگئے یا بندکرادئے گئے مگر سوجھرو اپنی ادبی روشنی پھیلاتا رہا۔ پندھہ بیس سال پہلے جب میں نے ابھی مشکل سے کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا تھا اور پھر سی ایس ایس کی تیاری کی تو دل چاہتا تھا کہ سوجھرو میں میرا ایک دو مضمون چھپ جائے تو مزہ آجائے مگر سوجھرو کا باقائدہ پڑہاکو ہونے اور ایک سو سے زیادہ کتابیں اور دو ہزار سے زیادہ تحقیقی مضامین لکھنے کے باوجود آجتک میری کوئی تحریر سوجھرو میں شایع نہیں ہوسکی۔
میں نے سوجھرو میں چھپنے والے ایڈیٹوریئل اور دیگرادبی معاملات کے طفیل تاج بلوچ کو جانا، پڑہا اور اپنی سوچ کے حساب سے پرکھا۔ یہ دور سیاسی اور سماجی حوالے سے ہماری قوم کا انفرادی اور اجتماعی طور پر انتہائی بدترین مانا جاتا ہے۔ گزشتہ پچاس ساٹھہ سالوں میں سندھہ کے ساتھہ کیا کیا ظلمات روا نہیں ہوئے جنہیں دیکھہ کر تاج بلوچ جیسے اہلِ وفا کن آنکھوں سے وہ انسانیت سوز اور تاریخ شکن مناظر دیکھہ سکے ہوں گے اور کیا ان کی روح نہ پگھلی ہوگی، دل خون بن کے نہ ٹپکا ہوگا اور نبض شناسِ عشق ڈوب ڈوب نہ دھڑکی ہوگی یہ تو کوئی ان رندانِ محبت سے پوچھے۔
پاکستان خون کے سمندر میں سے ابھرا تھااور ہماری بدقسمتی ہے کہ آج تک خون کے سمندر میں ڈوبتا ہی چلا جارہا ہے۔ پہلے صبح آزادی کیلئے ہمارے پرکھوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا ور اب حلقئہ میکشانِ، شب گلرنگ کی آرزو میں افق زیست پر انسانوں کا تازہ خون پھیلارہ ہے۔ جہاں دیکھو وہاں اندھیروں کا مسکن ہے۔ یہاں بدتر صورتحال سندھہ کے حصے میں آئی جہاں در اٹھا تو آنکھیں بند کرلی گئیں اور کوئی لپکا بھی تو محافظ بھیڑیوں نے بھنبھوڑ دیا مگر اس پر بھی متاع درد کے نگہدار بے خبری میں اپنا سب کچھہ لٹانے کے بعد بھی چین کے خراٹے لے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کا کیا ہو جو آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور چراغاں کی سرحدوں سے دور جانا نہیں چاہتے تھے۔ ایسے لوگوں نے اپنی مٹی کے محبت میں بستی بستی اور وادی وادی اعلانِ عشق کیا اور اندھیاروں میں عزم و ہمت کی مشعلیں (سوجھرو) جلا کر ہمیشہ اندھیروں کو مات دینی چاہی کیوں کہ یہ اہلِ قلم جانتے تھے کہ "خود فریبی قوموں کی زندگی میں خودکشی کے ہم معنی ہواکرتی ہے”۔
سندھی ادب میں سوجھرو کے حوالے سے ایک دور ہم نے ایسا بھی دیکھا جب سندھی ادیبوں سے متعلق ان کے مقام اور اوقات کا معیار اس رسالے میں چھپنے والی تاج بلوچ کی راءِ ہواکرتی تھی۔ اس پسمنظر میں نہ صرف سندھہ بلکہ دنیا بھر کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی نئی ادبی پود کا تاج بلوچ ایک ادبی استاد مانا جاتا رہا جس نے ان گنت نئے شعرا و ادباکو آسانیاں فراہم کرکے انہیں ذوق و شوق سنبھال کر تناور ادبی برگد بننے تک سنبھالا دینے میں ایک ایساکردار ادا کیا کہ موجودہ نسل کے بیشمار ادبی استاد جو ان کے لائق شاگرد رہے ہیں آج انہیں اپنا گرو اور ادبی باپ مانتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
تاج بلوچ گزشتہ آدھی صدی کے دوران موجودہ نسل کو ادبی راستہ دے کر آسانیاں دینے والا بہت بڑا محرک اور متحرک کردار رہا اور سندھہ میں فنونِ لطیفہ سے متعلق جوانوں کی علمی، ادبی اور تہذیبی تربیت میں اس کے رسالے "سوجھرو” نے ایک اہم کرداراداکیا جس کے پلیٹ فارم سے تاج بلوچ نے بیشمار کتابیں بھی چھپوائیں۔ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران سوجھرو کا مقام ایک مکمل ادبی اور کلاسیقی رسالے جیسا رہا جو نئے لکھاریوں اور شاعروں کیلئ صرف نرسری کا کام سرانجام دیتا رہا بلکہ ان کے ادبی مستقبل اور مقام کا تعین بھی کرتا رہا تھا۔ سوجھرو میں لکھے گئے تاج بلوچ کے ایڈیٹوریئلز نے بین الاقوامی ادب کو نئے ابھرنے والے سندھی ادیبوں میں متعارف کرنے میں بہت بڑا کردار اداکیا جس سے سندھی نوجوان ادیبوں کو بیشمار ادبی معاملات میں اپنا کعبہ قبلہ درست کرنے میں مدد ملی کیوں کہ تاج کا ماننا تھا کہ "جب تک ہمارے نوجوان بین الاقوامی ادب کا مطالعہ نہیں کریں گے انہیں اپنی ادبی سمتیں اور صفیں درست کرنے میں مشکل رہے گی”۔
سوجھرو کا پلیٹ فارم ہو یا شخصی میل ملاقات وہ نئے ادیبوں اور شاعروں کیلئے مشعلِ راہ کی سی حیثیت رکھتا تھا جن کی کچی پکی تحریروں کی نوک پلک سنوار کر چھپنے کے لائق بناکر انہیں حوصلہ دیا کرتا تھا۔ تاج بلوچ نے ہمیشہ ہلکا پھلکا، دلچسپ اور خوشگوار ادب پرونا چاہا تھا کیوں کہ گوڑھا ادب دے کر وہ قوم کا اجتماعی شعور منجمد کرنے کے حق میں نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ "ادب کو تعلیم کا حصہ بناکر ملک کے ہر شہری کو علم کی لذت سے آشنا کیا جائے جس کے ذریعے ہی اخلاقی اور معاشی انقلاب کی امید کی جا سکتی ہے”۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ "جس انداز کی بیداری دیکھنے کے ہم آرزومند ہیں وہ بیداری قصےکہانیوں سے آنے والی نہیں ہے بلکہ ہمیں سب سے پہلے اس کو اپنے دل کےاندر اپنی خامیوں میں تلاش کرنی چاہیے کیوں کہ اس کا راستہ ہمیں وہیں سے مل سکتا ہے”۔
تاج بلوچ کی شاعری انسانی احساسانات کی آئینہ دار مانی جاتی ہے جس میں مزاحمت کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے۔ اس وقت تک اس کی چار کتابیں منظر آچکی ہیں۔ درد جو صحرا (1970ع)، خوشبو جو زھر (1987ع)، لفظن جو ماتم (1994ع)، دل جزیرو اداس سپنن جو (2004ع)، چریوں چچریون خواب (کلیات)، جدید ادب جو تجزیو (تنقید) جس پر پاکستان اکادومی آف لیٹرز کی طرف سے شاھہ لطیف ایوارڈ دیا گیا تھا)۔۔ 1914ع میں چھپی اس کتاب میں تاج بلوچ کے شاعری، کہانی، ناول، لطیفیات اور دیگر موضوعات پر 42 تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس کی پہلی کتاب درد جو صحرا کو 1977ع میں رائیٹر گلڈ کی طرف سے سال کی بہترین شاعری کے ایوارڈ سے نوازا۔ تاج بلوچ کی منتخب شاعری کا لطیف نوناری نے "گریف ان ٹیٹرس” کے نام سے انتہائی شاندار اور منظوم ترجمہ کیا تھا۔
تاج بلوچ نے ادب کی دنیا میں بہت نام و مقام کمایا جو اسکا حق تھا تو حاصلِ محنت بھی۔ قلمی سابھیاں کے طور پر اسے بیشمار ایوارڈز و اعزازات ملتے رہے جن میں سے خاص "انٹرنیشنل جپسی کی طرف سے پوئٹری ایوارڈ”۔ 2019ع میں اسے حکومت پاکستان کا سب سے باوقار اور معزز صدارتی ایوارڈ "پرائیڈ آف پرمارمنس” دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی طرف سے "شاھہ عبدالطیف بھٹائی ایوارڈ”، جیسس ایوارڈ آف روٹرز گلڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اکثر لکھاری احباب تاج بلوچ پر "پرائیڈ آف پرفارمنس” اور اکیڈمی آف لیٹرز” جیسے سرکاری اعزازات لینے پر اعتراض لگاتے ہوئے تکرار کیا کرتے تھے جنہیں نہ صرف انہیں لینے کا حق تھا بلکہ نہ لینے کا کوئی خاص جواز بھی نہیں تھا۔
بڑہاپا بذاتِ خود بیماری ہی نہیں بیماریوں کی جڑ بھی ۔ صحت کے حوالے سے بھی تاج بلوچ کو خدشات رہتے آئے تھے۔ انجائنا کے درد نے بھی اسے ہلکاں کیا ہوا تھا۔ اور بقول اس کے کہ "انسان کو کبھی نہ کبھی مرنا بھی چاہئے آخر کب تک یہ دھرتی اس کا بوجھہ اٹھائے گی”۔ 4 جون 2020ع کو رات پونے گیارہ کے قریب سندھہ کے اس سہنے، ستابے اور سینگار جیسے بیٹے تاج بلوچ کی وفات 77 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے سبب کراچی میمن ہسپتال میں ہوئی۔ 5 جون کی صبح جنازہ نماز عثمانیہ مسجد نزد سفورا چورنگی ادا کرکے انہیں ایئرپورٹ کے سامنے واقع ماڈل کالونی کراچی کے نزدیک واقع قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
سندھہ میں رہنے والے دوسرے انسانوں کی طرح اس کی زندگی بھی بیشمار واقعات اور حادثات سے گزری مگر وہ ہمیشہ ایک قیمتی انسان ثابت ہوا کہ اس نے انسانیت سے کبھی ناطہ نہیں توڑا کیوں کہ وہ نسل، خون اور مذہب سے بالا تر ہوکے اپنے نظریاتی اصولوں کے ساتھہ جیتا رہا۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں سیاسی طور پر ہماری ناکامیوں کے بارے رائے دی تھی کہ "نظام وہی کامیاب ہوتا ہے جو ہر آدمی کی ضروریات کو پورا کرے۔ پاکستان میں سوائے ایک برائی کے باقی کچھہ بھی برا نہیں ہے۔ یہاں مخلصی کا فقدان ہے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کا احساس نہیں کرتے اور اس کے ساتھہ ہم نے خود کو مختلف خانوں میں بانٹ لیا۔ جب ہم خود کو ایک دوسرے کے خانوں میں بانٹنے سے باز آجائیں گے تب ہمارے اصلی جوہر دنیا دیکھے گی”۔
اس ہنستی مسکراتی روح کے جانے پر اس کے دوستوں، احبابوں، شاگردوں اور پرستاروں کو ایک دوسرے سے تعذیتیں کرتے دیکھہ کر مجھے ایسا لگا جیسے تاج بلوچ کے گھرمیں ہونے والے اس قضیہ کی غمگین آہٹیں اس کے چاہنے والوں، پرستاروں، چیلوں اور ہم سب کے گھروں میں گونچ رہی ہوں۔ مرنے کے بعد محبت کی ایسی وراثتیں کم ہی کسی کے حصے میں آتی ہوئی دیکھی گئی ہیں اور اس پسمنظر میں تاج بلوچ خوشنصیب تھا جس کا ادبی اور قلمی ورثہ زندہ رکھنے کا عہد اس کے شاگرد و احبات کر چکے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*