فاتح (انگریز)کی مسلط کردہ سزائیں

اسی اثناء میں سردار خیر بخش کوہتھیار ڈالنے ماوندطلب کیاگیا۔ماوند تو جل چکا تھا۔ اور اس کے مکین پہلے ہی شمال میں چمری کے علاقے کے بڑے پہاڑوں میں فرار ہوگئے تھے۔ خیر بخش نے اپنے سب سے معتبر مشیر وزیر سومرانڑیں کو ساتھ لیا۔ اور ماوند کے جنوب میں سورؔ(SORE)کے مقام پر 8اپریل 1918کو جنرل ہارڈی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے(1)۔

اس ہتھیار ڈالنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ یہ ہتھیار سارے قبیلے کی طرف سے ڈال رہا تھا۔ اس لیے کہ انگریز کے فیصلے کے مطابق قبیلہ کے ذیلی فرقوں کے وڈیرے انفرادی طور پر ہتھیار سردار کے سامنے ڈال چکے تھے، یا اُس کے اعتماد میں آچکے تھے۔ یوں سامراج نے کمال عقلمندی کے ساتھ مری قبیلے کو زیر بھی کر لیا اور سردار کی حیثیت کو بھی بہت مستحکم کردیا۔

انگریزہمارے اِن اکابرین کو 10اپریل کو”ترمنٹرؔ‘ساتیں والی“ کے راستے کاہان ساتھ لے گیا۔ یہ لوگ چپی کچ کے راستے 19اپریل کوکاہان پہنچے۔

وہاں اُس نے دوسرے مری وڈیروں کو بھی طلب کیا اور تین مطالبے کیے:۔

۔1۔ مانو کہ میں تمہارا بادشاہ

۔2۔ میں کسی کوپھانسی دوں تو مجھے اختیار

۔3۔ تاوان مانگوں گا۔ میں اپنے نقصان مانگوں گا، تمہارا نقصان نہ دوں گا۔

جون1918 میں ایک سپیشل جرگہ ہوا جس نے فیصلہ کیا کہ:۔

۔1۔سردار اور اس کے معتبروں کو دیئے گئے سارے خطابات واپس لیے جائیں گے۔

۔2۔اب مری قبیلے سے چراگاہ کا ٹیکس بھی لیا جائے گا۔

۔3۔جنگ میں قبضہ کیے گئے اُس کے سارے ہتھیار ضبط ہوں گے۔

انگریز نے مری اور کھیترانڑ کو اس جنگ کی پاداش میں سزا کا جو حکم نامہ جاری کیا تھا اُس کی کاپی ہم ڈھونڈسکے ہیں۔

”نواب صاحب اور مری کے سرکرداہ افراد!

”مری نے ایک عظیم جرم کیا ہے۔ حکومت نے آپ پر بڑی مہربانیاں کی ہیں اور آپ لوگوں نے وفا دار رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کی کہ موجودہ دباؤ کے دنوں میں مزید ضرورت تھی۔ مگر آپ لوگوں نے یہ سب کچھ یکسر فراموش کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کھلی اور سر گرم دشمنی کا رویہ اختیار کیا۔ آپ لوگوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آپ لوگوں کی شکایات(اصلی یا خیالی) کیا ہیں؟۔ آپ لوگوں نے گنبذ پردشمنی کا مظاہرہ کیا اور جب پولیٹیکل ایجنٹ آپ لوگوں کی شکایات معلوم کرنے آیا تو آپ لوگوں نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے قاصد کو زخمی کیا اوراس کی ہتک کی۔ اور بعد میں رات کو پولیٹیکل ایجنٹ اور اس کے محافظ پر غدار انہ شب خون مارا۔ اگر اس کے آدمی بہادری نہ دکھاتے تو ان کی پوری پارٹی تباہ ہوجاتی۔۔۔۔ آ پ لوگوں نے کوہلو تحصیل اور ہوسٹری کے تھانے لوٹے، ٹیلیگراف لائنیں تباہ کیں۔ ٹرینوں پر حملے کیے، نہتے دیہایتوں کو لوٹا اور آخر میں کھیترانڑ قبیلے سے مل گئے جنہیں آپ لوگوں کی بیماری لگ گئی اور انہوں نے بارکھان تحصیل لوٹ لی اور اُسے تباہ کر دیا۔ اور فورٹ منرو کا تھانہ اور ڈاکخانہ توڑ دیا اور پنجاب کے علاقے میں بیواٹہ پوسٹ جلا ڈالا۔ ان تمام وارداتوں کے بعد حکومت کے پاس سوائے اِس کے کوئی راستہ نہ تھاکہ آپ لوگوں کے خلاف کارروائی شروع کردے۔ آپ لوگوں کو اب سبق مل گیا اور گورنمنٹ کی قوت کا اندازہ ہوگیا۔۔۔۔ اب جبکہ سب کچھ ہوگیا تو حکومت آپ کو اپنی اولاد سمجھتی ہے، دشمن نہیں۔ مگر سرحد میں امن کی خاطر اور مری قبیلے کے ڈسپلن کی خاطر حکومت ماضی کو نظر اندازنہیں کرسکتی اور اس طرح کے جرائم پر سزا دیے بغیر نہیں چھوڑ سکتی۔

حکومت کی طرف سے آپ لوگوں پر مندرجہ ذیل شرائط لاگو کی جاتی ہیں:۔

اول:۔ مری وہ سارا مال فوری طور پر واپس کردے جو اس نے بارکھان اور کوہلو تحصیلوں کے خزانوں سے لوٹا۔

دوئم:۔ اپنے چیف کے توسط سے حکومت کی یا حکومت سے لی ہوئی ساری بندوقیں، اسلحہ اور گولہ بارود واپس کریں گے۔ اس بغاوت میں جو کچھ ہاتھ لگا وہ واپس کردیں گے۔

سوئم:۔ اپنے علاقے کے اندر یا باہر سرکاری ملکیت، ریلوے فرنیچر، ٹیلیگراف لائن کو جو نقصان پہنچایا اس کی تلافی کریں گے۔

چہارم:۔ کھیترانڑ نے پنجاب اور بلوچستان میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا جو ہر جانہ ادا کیا، مری اس میں اپنا حصہ ادا کرے گا۔

پنجم:۔ وہ لڑائی میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل کرنے، قیدی بنانے، زخمی کرنے یا لوٹنے کا معاوضہ ادا کریں گے۔

مزید براں آپ کے رویے کے پیش نظر مندرجہ ذیل شرائط ہیں:۔

اول:۔ بغاوت میں شامل ہونے والے سارے مریوں کو دیئے گئے اعزازات اور خطابات واپس لیے جاتے ہیں۔ مری چیف سے واپس لیے جانے والے اعزازیہ ہیں۔

سی آئی ای(کمپینین آف انڈین ایمپائر) ”نواب“ اور ”خان بہادر“۔

مڑزیھان سے ”خان صاحب“ اور شہذاذباولہاں زئی سے ”خان صاحب“ کا خطاب واپس لیا جاتا ہے۔

دوئم:۔ یکم مارچ1918 سے تمام ”معافی“(مالیہ وغیرہ سے استثنا) منسوخ کی جاتی ہیں۔ ان میں مری چیف کی پرائی اور گلوگوزو کی نجی زمینوں کی ”معافی“ بھی شامل ہیں۔ بہر حال حکومت چیف کو جوار کے پندرہ خروار سالانہ کا گرانٹ جاری رکھے گی۔ اسی طرح چیف اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے کوہلو میں زر کون سے مری کی خریدی زمین پر ہر موسم بہار کی فصل پر اناج کا سرداری الاؤنس لیتا رہے گا۔

سوئم:۔ کوئٹ منڈاہی کی زمینوں کی فصل پر حکومت اپنا حصہ بارہویں سے‘چھٹے حصے تک بڑھاتی ہے،(مستقل طور پر)۔

چہارم:۔ کوہلو تحصیل کی مری کی زمینوں کی فصل پر سرکاری حصہ دس سال تک بارہویں سے بڑھا کر چھٹا کردیا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ”مرنج معاہدے“ کی شق نمبر3،دس برس کے لیے معطل کی جاتی ہے۔ مری کی ملکیت میں جانوروں کے چَرانے کا ٹیکس دس سال تک پورے ریٹ پر لیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ”مرنج معاہدے“ کی شق نمبر4 دس برس تک معطل کی جاتی ہے۔

پنجم:۔ مری پچھتر برنج لوٹ(Breach-loading) بندوقیں حکومت کے حوالے کردے گا۔

ششم:۔ کوہلو اور کاہان میں حکومت کی طرف سے تعمیر کردہ سارے کچے ہوائی اڈوں (Aerodromes)کی حد بندی اور مرمت مری کے خرچ پر ہوگی اور جس زمین پر یہ Aerodrome بنے ہوئے ہیں وہ بلا معاوضہ حکومت کی ہوگی۔

ہفتم:۔ بابر کچھ سے براستہ کوئٹ منڈاہی،میرداد، چاکر تنک، بژیر کچھ، ماوند، منجھرا تا کوہلو خچروں سے چلانے والی ریڑھیوں کی سڑک مری کے خرچے پر بنائی جائے گی۔

انگریز نے مری پر3,67,000 روپے تاوان ڈال دیا(1,36,000 روپے جنگ کا نقصان اور2,31,000 دیگر نقصانات اور لوٹ مار کے عوض)۔

لڑائی میں مری سے چھینا گیا سارا اسلحہ ضبط کیا گیا۔ کوہلو اور کوئٹ منڈاہی پر ٹیکس بھی بڑھادیا گیا۔کوئٹ منڈاہی دوبارہ کہیں جاکردوئم 1922 میں قبیلہ کو مل گیا۔ ”آپ جانتے ہیں کہ حکومت رحمدل ہے اور جب اس کے بچے صحیح معنوں میں پشیمانی ظاہر کریں تو اپنا غصہ پی جانے میں بہت تیز رفتار ہے۔ حکومت کو یہ دیکھ کرخوشی ہوگی کہ آپ کے علاقے سے بد بختی کے بادل چھٹ جائیں۔ لہذا اب یہ آپ لوگوں پر ہے کہ اپنے آئندہ کے برتاؤ سے ثابت کریں کہ آیا حکومت اپنی سابقہ مہربانی کے ساتھ آپ لوگوں سے پیش آئے“(2)۔

انگریز نے بالکل اسی طرح کا ایک مراسلہ کھیترانڑ کو بھی بھیجا۔ سزائیں وغیرہ تقریباً وہی ہیں جو مری کیے لیے تھیں۔ مگر ان کے ”جرائم“(ہماری نظر میں ”کارنامے“) کی تفصیل ذرا مختلف ہے۔

بلوچ جدوجہد ِ آزادی کو نظر انداز کرنے والوں کو ہم ہر جنگ ایک ایک کرکے بتاتے جارہے ہیں تاکہ ہماری قومی جدوجہد کا مکمل نقشہ ابھر کر سامنے آ سکے۔ ہم کھیترانڑ قبیلہ کے خلاف انگریز کے فیصلے کے ضروری حصے یہاں نقل کرتے ہیں۔

”سردار بختیار خان کھیترانڑ اور کھیترانڑ کے معتبرین!

”مجھے حکومت کے خلاف آپ لوگوں کی مذموم کارروائیوں کی طویل کہانی کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کھیترانڑ قبیلے کے بڑے حصے نے شروع ہی سے مری بغاوت میں اس کے ساتھ کھلی ہمدردی دکھائی۔ تحصیل بارکھان کی دفاع کے لیے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے جمع کیے ہوئے کھیترانڑ22فروری ہی کو ایک ساتھ فرار ہوگئے جبکہ محض دو ہی دن قبل مری نے گنبذ پر حملہ کردیا تھا۔ یکم مارچ کو رکھنی کے جمعدار مصری خان نے کھلی بغاوت کی اور مریوں سے جا ملا۔ وہ بہت سے کھیترانڑ ساتھ لے گیا اور فورٹ منرو کے قریب پوسٹ آفس اور تھانہ جلادیئے۔ اس نے تین مار چ کو تین بنیے مار د یے۔ پانچ مارچ کو مری کے پہنچنے سے قبل ہی، پولیس کے چلے جانے کے بعد،بہت سے کھیترانڑ مل کر تھانہ میں گھس گئے اور جو کچھ ملا تباہ کردیا، یا چوری کیا۔ اسی روز مری اور کھیترانڑ نے مل کر مصری خان اور وزیرہان مری کی قیادت میں حکومت کا خزانہ لوٹ لیا اور تحصیل کو جلا دیا۔7مارچ کو کچھ کھیترانڑوں نے بغاوت میں موسیٰ خیل قبیلے کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی اور کنگری ریسٹ ہاؤس کو لوٹ لیا۔ گیارہ مارچ کو مری اور کھیترانڑ نے مل کر پنجاب کے علاقے میں بیواٹہ پوسٹ کو جلا ڈالا اور برطانوی ایڈوانس کو روکنے کے لیے فورٹ منرو کے قریب جمع ہوگئے اور پندرہ مارچ کو انہوں نے فورٹ منرو کے مقام پر برطانوی فوجوں پر حملہ کردیا مگر شکست کھا کر بکھر گئے۔

”۔۔۔۔۔ سردار کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ مشکل اور جذباتی وقت پر اپنے قبیلے کو کنٹرول کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ اپنے قبیلے یا حکومت کے لیے کسی کام کا نہیں ہوتا۔۔۔۔“(3)۔

(قارئین آپ سمجھے سرکار کی اصل ڈیوٹی؟۔ انگریز سے لے کر آج تک؟)

ہم آپ کو یہ بھی بتادیں کہ کھیترانڑ کی زمین شاید پورے بلوچستان میں سب سے زیادہ زرخیز زمین ہے۔ ان کے نمایاں آدمیوں کو لینڈریونیو میں ”معافی“ تھی۔ کھیترانڑعوام الناس پر لینڈریونیو نقدی کی صورت میں نہ تھا بلکہ مجموعی پیداوار کا چھٹا حصہ اناج کی صورت تھا۔ انگریزوں نے جو سزائیں دیں وہ تقریباً مری قبیلے پر عائد کردہ سزاؤں جیسی تھیں۔ اس لیے انہیں دُھرانے سے قاری کی معلومات میں کوئی اضافہ نہ ہوگا۔مگر آپ اس بات سے اندازہ کرلیں کہ اُس قبیلے کی زرخیز زمین پہ اس سارے جرمانے کی مالیت کیاہوگی۔

*

عزیز بگٹی نے لکھا: ”ایک دفعہ اُسے اپنے ایک رشتہ کے ماموں نے بتایا جو خود بھی سبی کے شاہی جرگہ میں شرکت کرتا تھا،کہ سبی کے شاہی دربار میں ایجنٹ گورنر جنرل نے نواب خیر بخش مری کے لئے عام معافی اور خطابات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”نواب صاحب ہم کو یقین ہے کہ آئندہ آپ سرکارِ برطانیہ کے خلاف لڑائی نہیں کروگے“۔

اس پر نواب خیر بخش مری نے لاٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے برجستہ جواب دیا کہ ”لاٹ صاحب مجھے بھی امید ہے کہ آئندہ انگریز سرکار مری قبیلہ سے فوجی بھرتی نہیں مانگے گی“۔(4)۔

ریفرنسز

آرکائیوز آف بلوچستان“ سال1918، فائلXXIII۔ Raids، نمبر5 جلد نمبر1، صفحہ نمبر3۔

آرکائیوز آف بلوچستان“ سال1918، فائلXXIII۔ Raids، نمبر5 جلد نمبر1، صفحہ نمبر3۔

۔ایضا، صفحہ72۔

۔ بگٹی۔ عزیز۔ ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ مارچ 2013۔صفحہ52۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*