بلوچستان سنڈے پارٹی

بلوچستان سنڈے پارٹی کی میٹنگ 4 اپریل 2021 کو پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی، جس میں مختلف موضوعات زیر بحث رہے۔ بلوچستان سنڈے پارٹی ایک عرصے سے بغیر کسی تعطیل کے اپنے پروگرام تسلسل کے ساتھ کرتا آرہا ہے۔ جہاں بحث مباحثہ کی روایات کم ہوتی جارہی ہیں وہیں سنڈے پارٹی دانش ورو ادیبوں کےلیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے کہ جہاں وہ اپنی بات رکھ سکتے ہیں اور اس پر سائنسی بنیادوں پر بحث ہوتی ہے ۔
گیارہ بجتے ہی ہم اپنی نشتوں پر براجماں ہوئے ، ہم نے برژوا سیاست اور سیاست دانوں کے کردار پر بات کی۔ کہ برژوا ڈیموکریٹ پارٹیاں اپنی موقف بدلتی رہتی ہیں، جیسے آج کی کہی بات کل بدل جاتی ہے۔ یعنی آج وہ جو بات کہ رہے ہیں کل بالکل اس کے الٹ بات کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ حقیقی اور سچا سیاست دان کا موقف واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا تھا کہ بزنجو صاحب کا موقف کسی بھی واقع پر کیا ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ایک کھرا اور سچا انسان تھا اپنے پوائنٹ آف وویومیں ایک مکمل کلیئیر ۔
موضوع آگے بڑھی تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ہم کسی ایک شخص کے برا ہونے پر پورے سماج کو برا نہیں کہ سکتے۔ کسی ایک کرپٹ سیاست دان کی وجہ سے سارے سیاست دانوں کو کرپٹ نہیں کہ سکتے ۔ یعنی فرد کا پیمانہ ہم سماج کےلیے استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے ۔ کوئی ایک فرد برا ، کرپٹ یا بددیانت ہو سکتا ہے لیکن سماج ہر گز نہیں ۔
یہ بحث جاری تھی کہ اتنے میں ہمارے اعزازی مہمان بیورغ بزدار آئے اور پھر گفتگو ان کے حوالے کی گئی۔ ان سے سنڈے پارٹی کے شرکاء نے مختلف مضوعات پر سوالات کیے ۔ مثلاً سوال تھا کہ اسلام آباد میں بیٹھا ادیب و دانش ور بلوچستان کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ بیورغ بزدار کے مطابق وہاں کے بعض لوگوں کو تو بلوچستان کے حالات کا پتہ تک نہیں ، عابد میر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہاں کے عام شخص کی بات چھوڑیں بلکہ وہاں کے پرفیسرز کا بھی یہ حال ہے کہ بلوچستان کے بارے میں معلومات انتہائی کم ہیں ۔ خان آف قلات اور اس کے قائد اعظم کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے بارے میں وہاں کے ادیب کو تو سرے سے معلوم نہیں ان کےلیے یہ باتیں نئی ہوتی ہیں ، عابد کے مطابق وہ ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ یہ باتیں باقاعدہ کتابوں میں چھپ چکی ہیں وہ خود سے یہ باتیں نہیں کر رہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ایک سوال بیورغ کے سامنے رکھا کہ وہاں کے پروگریسو رائیٹر کو کیسے بلوچستان کے پروگریسو رائیٹر سے جوڑا جائے؟ اور کس طرح وہاں کے ادیب ودانش ور سے کنورژن کیا جائے ؟ جس کے جواب میں بیورغ نے کہا کہ وہاں کے پروگریسو رائیٹر کو تلاش کرکے اسے پھر سنگت پوہ زانت میں دعوت دی جائے۔
اس بات پر سب متفق ہوئے کہ بلوچستا ن سے باہر یعنی پنجاب ، اسلام آباد، سندھ اور کے پی کے ، کے دانشور کو بھی سنگت پوہ زانت کا حصہ بنا دیا جائے گا ، اور ہر پوہ زانت میں بلوچستا ن سے باہر کا کوئی ایک ادیب اپنا مضمون پیش کرے گا۔ آخر میں شاہ محمود سنجرانی نے فارسی میں زن کے عنوان سے شاعری پیش کی ۔
اس امید کے ساتھ سنڈے پارٹی کا اختتام ہوا کہ آنے والے سنڈے پارٹی میں ہم اس سے زیادہ لوگ ،کئی اہم مضوعات لے کر پھر جمع ہوں گے ۔ اس روایت کو برقرار رکھتےہوئے عشاق کا کارواں یونہی چلتا رہے گا۔
سنڈے پارٹی کے اختتام کے بعد سنگت اکیڈمی آف سائنسزز کا ایک وفد ڈاکٹر شاہ محمد مری اور پرفیسر جاوید اختر کی قیادت میں ملازمین کے احتجاج میں شامل ہو کر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔ یقیناً سماج کے دانش ور و ادیب کو عوام سے جڑنا اور ان کے دکھ درد میں عملاً شریک ہونا اشد ضروری ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*